آزادی پر عمل

برما کی جمہوریت کی حامی رہنما آنگ سان سو کی آزادیِ اظہارِ راۓ کی اہمیت پر اصرار کرتی ہیں لیکن بدھ مت کے "صحیح اظہارِ راۓ” کے نظریہ پر بھی زور دیتی ہیں.

 آزادی کی جنگ کا آغاز آزادئِ اظہارِ راۓ سے ہوتا ہے، برما کی جمہوریت کی حامی رہنما انگ سان سو کی کہتی ہیں. یہ سنسر شپ انڈکس کی چالیسویں سالگرہ کے شمارے میں ایسے منشوروں کی سیریز کا ایک حصّہ ہے جو ایک مزید صاف گو دنیا کا مطالبہ کر رہے ہیں.

تحفہِ گفتار انسانی مواصلات کا مؤثر ترین آلہ ہے. اس کےذرئیے وقت اور جگہ کے پار روابط قائم  ہوتے ہیں، مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو جانا اور سمجھا جاتا ہے، علم کو مختلف سِمتوں میں پھیلایا جاتا ہے،  فن اور سائنس کو فروغ دیا جاتا ہے. یہ لوگوں اور قوموں کے درمیان تفریق کو پارکرنے میں، دشمنی ختم کرنے میں، کشیدگی میں کمی لانے میں، اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے. .

قوّتِ گفتار انسان کو اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کی اجازت دیتی ہے. الفاظ ہمیں، اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی، اپنے تجربات ریکارڈ کرنے کی، اپنی سوچوں کے حصول کی،  اور ذہنی کاوشوں کو ان کی آخری حدوں تک دھکیلنے کی اجازت دیتے ہیں. الفاظ دلوں کو چھو سکتے ہیں، الفاظ تصورات کو تبدیل کر سکتے ہیں، الفاظ اقوام اور ممالک کے لئے طاقتور محرک ہو سکتے ہیں. الفاظ ہماری انسانیت کے اظہار کا ناگزیر حصّہ ہیں. آزادئِ اظہارِ راۓ کو بیڑیاں پہنانا اپنی صلاحیتوں کے مکمل ادراک کے بنیادی حق کو معذور کر دینے کے مترادف ہے.

کیا آزادئِ اظہارِ راۓ کا غلط استمعال ممکن ہے؟ تاریخ کے مطالعے سے ظاہرہوتا ہے کہ الفاظ زخم بھی ہوتے ہیں اور مرہم بھی، لہٰذا ہم پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ ہم اپنی  فصاحت و بلاغت کا استعمال صحیح راہ میں کریں. “صحیح” راہ کیا ہے؟ احکام عشرہ میں جھوٹی گواہی کے خلاف حکم شامل ہے.

قوّت گفتار کے ذریعے دوسروں کو دھوکہ دینا یا نقصان پہنچانا عمومی طور پر ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے. بدھ مت کی تعلیم ہے کہ “زندگی میں داغدار ناکامی” چار لسانی اعمال پر مشتمل ہے: اپنی خاطر، کسی دوسرے کی خاطر یا کسی مادی فائدے کی خاطر جان بوجھ کر جھوٹ بولنا؛ ایسے الفاظ ادا کرنا جن سے جھگڑا ہو، یعنی جو متّحد ہوں ان میں تفرقہ ڈلے، جو پہلے ہی بہم خائف ہوں ان میں مزید اختلاف پیدا ہو؛ سخت زبان یا گالی گلوچ کا استمعال، جس سے دوسروں کے ذھن میں غصہ اور انتشار پیدا ہو؛ ایسی گفتگو میں شامل ہونا جوغیردانشمندانہ، بے قابو اور نقصاندہ ہے.

جدید قوانین ہمارے پرکھوں کی سوچ کی غمازی کرتے ہیں. جھوٹی گواہی، بہتان اور بدنامی، فرقہ وارانہ نفرت پر اکسانا، تشدد پر اکسانا، یہ سب کئی ممالک میں قابل سزا جرائم  ہیں. آزادئِ اظہارِ راۓ کے منفی اثرات کی پہچان بہرحال آزادئِ اظہارِ راۓ کا گلہ گھونٹنے کے نقصاندہ اثرات کے احساس کے ہم پلہ نہیں رہی.

عمومی طور پر جن معاشروں میں اقتدار کی کرسی تنگ ہوتی ہے وہاں آزادئِ اظہارِ راۓ کو موجودہ نظام کے لئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے.جب موجودہ غلطیوں اور ناانصافیوں کے خلاف آزادئِ اظہار پر پابندی لگا دی جاتی ہے، تو معاشرہ مثبت تبدیلی اور تجدید کے اھم ترین محرک سے محروم کر دیا جاتا ہے. سنسر شپ کے قوانین جو بظاھر معاشرے کو نقصان سے محفوظ رکھتے ہیں، شاز و نادر ہی مثبت ثابت ہوتے ہیں. عام طور سے ان کا نتیجہ ایک بےیقینی کی فضا اور سوچ میں جدّت کا گلہ گھونٹنے والے خوف کی صورت میں ہوتا ہے.

بیسویں صدی میں آ کر آزادئِ اظہارِ راۓ کو ایک بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جانے لگا. آج بھی آزادیِ اظہار کا حق بہت سارے ایسے ممالک میں کمزور یا نا معلوم ہے جو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے اعلانیے پر دستخت کنندہ ہیں. تاریخ کی مثل آج بھی طاقت اور اثر و رسوخ رکھنے والے،  شکایات و خواہشات کی آزادیِ اظہار کے مخالف ہیں.

یہ بات بجا ہے کہ اظہارِ راۓ کی آزادی سے زیادہ اھم اظہارِ راۓ کے بعد کی آزادی ہے. آمریت کے سالہاسال کے دوران برما کی تحریک جمہوریت کے اراکین کو انسانی حقوق کی پامالی اور طاقت کے ناجائز استمعال کے خلاف آواز اٹھانے پر سزا دی جاتی رہی. وہ چند جنہوں نے آواز اٹھائی وہ ان سب کے خاموش احتجاج کو واضح کر رہے تھے جنہیں ڈرا دھمکا کر خاموش کر دیا گیا تھا.  گِنے چُنے لوگوں کا طاقت کے جگن ناتھ کے مقابل کھڑے ہونا مشکل نہیں. یہ نجی اور عالمی سطح پر ہم خیال لوگوں کی یکجہتی تھی جس نے ہمارے آزادئِ اظہارِ راۓ کے وکلاء کو تقویت دی.

آزادئِ اظہارِ راۓ کا وکیل لازماً اس پر عمل پیرا  بھی ہوتا ہے. جو آزادی گفتار کا دفاع کرنا چاہتے ہیں ان کے عزم کے اظہارکے لیے ‘جو کہیں وہ کر کے دکھائیں’ کا اصول بنیادی قانون ہے. جب ہم اپنی آزادئِ اظہارِ راۓ کی خاطر آواز بلند کرتے ہیں تو ہم اپنے اس حق کو استمعال کرنا شروع کرتے ہیں. جب ہم اپنی آزادئِ اظہارِ راۓ کے لیے لکھتے ہیں، ہم اپنے اس حق کو استمعال کرنا شروع کرتے ہیں. ان آزادیوں کی نظریاتی وکالت ممکن نہیں، صرف عملی وکآلت اور عمل درآمد ممکن ہے.

آنگ سان سوکی قومی لیگ براۓ جمہوریت کی رہنما ہیں. ان کو ١٩٩١ میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا

مزید پڑھئے:


تبصرے (0)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    The practice of freedom is important to every country.Democracy is the basic demand to people all over the world.

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی