07پردہ

ہمیں اپنے حقِ پوشیدگی کو محفوظ رکھنا چاہیے اور اپنی شہرت پر لگنے والی تہمت کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن عوامی مفاد میں ہونے والی کوپڑتال کو منع نہیں کرنا چاہیے۔

حق راز داری کیا ہے؟ عوامی مفاد کیا چیز ہے؟

ہمارا آٹھواں اصول وہ اہم قابل قبول وجہ بتاتا ہے جو کے ہمیں لوگوں کی نجی زندگی میں عمل دخل کرنے کا جواز دیتا ہے: یعنی کے عوامی مفاد. سوال پھر یوں ہے کے نجی معاملہ کیا ہے اور عوامی مفاد کیا چیز ہے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے.

تمام انسانی ثقافتوں میں نجی زندگی کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہے لیکن وقت اور جگہ کے مطابق نجی کا مطلب بھی بدلتا رہتا ہے. قدیم زمانے کے رومانی شہر ایفسس کے باشندے ایک ساتھ بیت الخلا جاتے تھے. جدید جرمنی میں پبلک پارکوں میں برہنہ ہونا قابل قبول ہے جب کے باقی ممالک میں یہ شائستہ نہیں سمجھا جاتا. آپ ہمیں اپنے ملک میں نجی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں تو ادھر کلک کریں.

مجموعی طور پی زیادہ تر یورپی ممالک میں نجی زندگی اور حق راز داری کی امریکہ سے زیادہ وسیع تعریف ہے – اور وو اس دفع کرنے کے لئے آزادی اظہار راۓ کو محدود کرنے کو بھی زیادہ تیار ہوتے ہیں. ١٩٧٠ میں ایک فرانسیسی عدالت نے ملک کے سول کوڈ میں حق رازداری کی شق کی توسیع کرتے ہے کہا کے یہ ‘اپنے نام، تصویر، نجی زندگی، غیرت، شہرت، سوانح امری کے حق اور اپنے ماضی کے جرائم کو بھلا دینے کے حق’ کا تحفّظ کرتی ہے. ڈامینک سٹراس کاہن اس سے خوش ہونگے. لیکن کیا اس معاملے میں حقیقی عوامی مفاد اس میں نہیں کے وو اپنے ممکنہ صدارتی امیدوار کا عورتوں کے معاملے میں غلط ریکارڈ کو جانیں؟

لیکن عوامی مفاد کی تشریح پر بھی ایک گرما گرم بحث ہے. ٹیبلائیڈ اخبار اور سنسنی خیز باتیں پھیلانے والی ویب سائٹیں عوامی مفاد کا جواز دے کر فٹبال کے کھلاڑیوں اور دوسرے ستاروں کی نجی زندگی کے بارے میں انکشافات افشاں کرتی ہیں. لیکن عوامی مفاد وو نہیں جو کے ‘عوام کو دلچسپی دے’ اور جس کے ذریعے اخبارات بکیں یا ویب سائٹوں پر ٹرافک بڑھائے. اگر یہ دونو چیزیں برابر ہوتیں تو مشہور شخصیات کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی کیوں کے عام پبلک کے کچھ لوگ ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں انتہائی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں. عوامی مفاد کے معنی پر ادھر ایک دلچسپ بحث ہے. وہ لوگ جو کے عوامی شخصیات ہیں ان کو اپنی نجی زندگی میں عام لوگوں سے زیادہ چھان بین کی توقع ہونی چاہیے. لیکن یہ ہمیں ابھی بھی اس معاملے پر چھوڑ دیتا ہے کے عوامی شخصیت کیا ہوتی ہے.

جس طرح آزادی اظہار راۓ کے ساتھ عمومی طور پر ہوتا ہے، سیاق و سباق پر بہت سی چیزوں کا انحصار ہوتا ہے. اگر میرے ایک بالغ کے ساتھ (جو کے میرا اعلان کردہ جیوں ساتھی نہیں) جنسی تعلقات ہیں تو یہ میرا نجی معاملہ ہے. لیکن اگر میں ایک با اثر تبلیغی ہوں جو کے ہر وقت شادی کی حرمت کے بارے میں درس دیتا رہتا ہے تو یہ ایک عوامی مفاد کا معاملہ ہے. اگر ایک دفاعی منسٹر کا کوئی عاشق ہے تو یہ اس کا نجی معاملہ ہے؛ لیکن اگر یہعاشق ایک دشمن قوّت کا (یا کی) ایجنٹ ہے تو یہ ایک عوامی مفاد کا معاملہ ہے. اگر میرے کسی تیل کی کمپنی میں حصّے ہیں تو یہ میرا نجی معاملہ ہے لیکن میں ایک سرکاری افسر ہوں جس کی ذمہ داریوں میں تیل کمپنیوں کو منافع بخش معاہدے دینا شامل ہے تو میرا اس کمپنی میں حصّے رکھنا ایک عوامی مفاد کا معاملہ ہے – لیکن ہو سکتا ہے کے میری باقی سرمایہ کاری نہ ہو. اگر مجھے کوئی طبی مثلا ہے جس کی وجہ سے میں ریاضی کے سادہ سوال نہیں کر سکتا تو یہ میرا نجی مسئلہ ہے، لیکن اگر میں شہر کے خزانچی کی پوزیشن کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے (لیکن شاید صف اس شہر کے باشندوں کے لئے نہ کے پوری دنیا کے لئے). اگر میرے اسکول یا یونیورسٹی میں خراب نمبر تھے تو یہ میرا نجی معاملہ ہے لیکن اگر میں امریکہ میں صدارتی انتخاب میں کھڑا ہوتا ہوں تو یہ ایک عوامی مفاد کا معاملہ بن جاتا ہے.

صرف ججوں کو ہی نہیں بلکے ایڈیٹروں، اساتذہ، ڈاکٹروں اور ہم سب کو اس طرح کے بیشمار انفرادی فیصلے کرنے ہوتے ہیں. لیکن پھر بھی بنیاد اصول پیچیدہ نہو. کیس تر کیس بنیاد پر ہم عوامی مفاد اور نجی زندگی و حق راز داری میں توازن رکھتے ہیں.

‘حق رازداری ختم ہو چکا ہے. یہ بات اب مان لیجئے’.

انٹرنیٹ کے دور نے ان حالات کو تبدیل کر دیا ہے جن میں ہم یہ توازن تلاش کرتے ہیں. جو نجی معلومات چالیس سال پہلے ایک یاں دو دھول بھرے کاغذوں پی ہوتی تھی آج الیکٹرانک طور پر جمع کی جاتی ہے – اور اگر آپ انتہائی احتیات اور تکنیکی طور پر ماہرانہ انداز سے کام نہ لیں تو اس کی رسائی کئی لوگوں تک ہو سکتی ہے. اس کے ساتھ ساتھ اب کئی ساری نے معلومات ہے جو کے چالیس سال پہلے وجود میں ہی نہیں تھی جیسے کے آپ کے آن لائن سرچ ریکارڈ، ای-میل، کریڈٹ کارڈ ریکارڈ وغیرہ. ایک چوٹی سی امریکی ڈیٹا سٹوریج کمپنی آئیکسکام کانوے آرکنسا میں اپنے بارے سروروں پر ٩٦ فیصد امریکی گھرانوں کی اور دنیا بھر کے کچھ آدھے ارب لوگوں کے بارے میں معلومات کے ١٥٠٠ منفرد ریکارڈ رکھتی ہے.

ایک ترقی یافتہ ملک کے عام شہری کے بارے میں جتنی کل نجی معلومات آج کے کمپیوٹروں پی موجود ہے وو جارج آرویل کے ‘بگ برادر’ کے سب سے خوفناک خوابوں سے بھی کہیں زیادہ ہے. یہ معلومات (جو کے کبھی کبھار جزوی طور پر گمنام ہوتی ہے) اکثر پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتوں آپ کو ذاتی طور پر بدلے ہوئے اشتہار اور سہولتیں فراہم کرنے والوں تک پہنچائی جاتی ہے. آپ استعمال کرنے والے اور ہونے والے دونوں ہیں. اینڈریو لیوس (عرف بلو بیٹل) ویبسائٹ میٹافلٹر پر کہتے ہیں ‘اگر آپ کسی چیز کو خرید نہیں رہے تو آپ خریدار نہیں بلکے آپ وہ شہ ہیں جو بیچی جا رہی ہے.’

ٹکنالوجی کی بڑھتی ہوئی رفتار آرویلین اقدامات کے امکانات بڑھاتی جا رہی ہے. گوگل سٹریٹ ویو نے عورتوں کو اپنی چھتوں پر سورج سیکتے ہوئے دیکھا ہے جب کے وہ غالبا اس غلط فہمی میں تھیں کے وہ اکیلی ہیں. گوگل اور فیسبک نے چہرہ پہچاننے والی ٹکنالوجی بنا لی ہے جس سے ہو سکتا ہے وہ کسی بھی فرد کی تمام آن لائن تصویریں پہچان لیں. موبائل فونوں کے جی پی ایس سسٹم اور لندن کے آیسٹر کارڈ جیسی چیزوں پر ریڈیو فریکونسی ٹیگ کا مطلب ہے کے آپ کی ظاہری دنیا میں حرکات کو آپ کی آن لائن سرگرمیوں کی طرح دیکھا جا سکتا ہے.

دنیا کے سب سے آزاد ممالک میں بھی یہ پوری یا اس میں سے کچھ معلومات سرکاری ایجینسیاں – اپنی عوام کو دہشتگردوں، بدمعاشوں اور پدوفایلوں سے بچانے کے نام پر – استعمال کرتی ہیں اور انہوں نے اس بہانے اپنے آپ کو لوگوں کی زندگیوں میں عمل دخل کرنے کے غیر معمولی اختیارات دے دئے ہیں. برطانیہ کے مواصلات روکنے والے افسر کی طرف سے ایک سرکاری رپورٹ یہ انکشاف کرتی ہے کے ٢٠١٠ میں انٹلیجنس اور قومی سلامتی کے اداروں کی طرف سے مقامی کونسلوں کو معلومات تک رسائی کی ٥٥٢٥٠٠ درخواستیں حصول ہوئیں. آکسفورڈ یونیورسٹی میں انٹرنیٹ سیکورٹی کے ماہر این براون ادھر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں.

اپنی رپورٹ میں گوگل نے دنیا بھر کی حکومتوں سے حاصل ہونے والی درخواستوں کے بارے میں کچھ چیزیں ظاہر کی ہیں. لیکن امریکہ میں قومی سلامتی کی درخواستوں کی ایک ایسی قسم ہے جو کے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والوں پر یہ فرض کرتی ہے کہ وہ نہ صرف مخصوص صارفین کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کریں بلکے ان کو اس قسم کی درخواست کے وجود کو بھی تسلیم کرنے سے منع کرتی ہے. ٢٠١١ کی گرمیوں کے دوران فیسبک اور ٹویٹر کے اعلی قانونی افسران سے بات کرتے ہوئے میں نے ان سے کہا کہ ‘لیکن کم از کم آپ مجھے یہ تو بتا سکتے ہیں کے آپ اندازا اس قسم کی کتنی درخواستیں وصول کرتیں ہیں؟’. انہوں نے مایوسی کے ساتھ مجھے بتایا کے وو مجھے یہ تک نہیں بتا سکتے.

یہ عوامی اور نجی قوّتیں ایک اہم زاویے سے آپ کو اپنے بارے میں اس سے کہیں زیادہ بتا سکتے ہیں جو کے آپ خود جانتے ہونگے. کیوں کے آ کو خود اپنے ماضی کے بارے میں کچھ چیزیں یاد اور کچھ بھول جاتی ہیں – اور انسانی فطرت کے مطابق خاص طور پر وو باتیں لئے شرمندگی کا بائث ہوتی ہوں. لیکن ایک کومپیوٹر یہ سب باتیں بلا امتیاز یاد رکھتا ہے. اور یہ ان تصویروں اور انکشافات سے پہلے ہیں جو کے آپ نے خود ہی فیسبک، رین رین اور دوسرے سوشل میڈیا پر پوسٹ کئے ہونگے.

‘حق رازداری ختم ہو چکا ہے. یہ مان لو اور آگے بڑھو’. یہ وہ حیرت انگیز نتیجہ ہے جو کے سلیکون وادی کے ایک چیف ایگزیکٹو سن مائکرو سیسٹم کے سکاٹ مکنیلی نے اخذ کیا. بہت سی مشہور کہاوتوں کی طرح انکا بھی کہنے کا مطلب بلکل یہ نہیں ہو گا لیکن ان کی بات کا نچوڑ یہ ہی تھا.

اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے آئیے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں. امریکہ میں ٹائیلر کلیمنٹی (جو کے رتجر یونیورسٹی میں ایک ١٨ سالہ طالب تھے) کو اس کے ساتھ رہنے والے شخص نے ایک آدمی کے ساتھ قریب ہوتے ہوئے فلم بند کر لیا. اس روم میٹ نے یہ ویڈیو کمپیوٹر کے ویب کیم کے ذریعے آن لائن ساری دنیا کو سٹریم کر دی. اداسی اور دباؤ کے علم میں ٹائلر نے واشنگٹن پل سے دریا حڈسن کے اندر چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی. (اس کا فیسبک پر الوداعی پیغام یہ تھا کے ‘جی ڈبل یو پل سے کود رہا ہوں، سوری). چین میں نام نہاد ‘انسانی جسم کے سرچ انجنوں’ نے وانگ یو نامی عورت کو ڈھونڈ نکالا جوس کو ایک دوست نے نجی طور پی اپنی ہیلز کے ذریعے ایک بلی کے بچے کو مارتے ہوئے فلم بند کیا تھا. جب گوگل نے اپنا بز نامی نیٹورک لانچ کیا تو ایک عورت حس کا تخلص ‘ہاریٹ جیکبس’ ہے اور جو اپنے جسمانی تشدد کرنے والے والدین اور شوہر سے چھپ کے جی رہی تھی اس کے جی میل اکاؤنٹ کے سارے نجی کنٹیکٹ سب کے ساتھ شیر کر دے گے. اس نے اپنے چاڈ نامی بلاگ میں لکھا کہ ‘میرے حق رازداری کے خدشاتی کوئی معمولی نہیں ہیں، اس کا تعلّق میری جسمانی حفاظت سے ہے.’

ہم اس کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟

کیا ہم ان چیزوں پر مطمئن ہیں؟ اگر نہیں تو ہم اس کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟ جب آپ ایک آن لائن یا موبائل کمپنی کے ساتھ رجسٹر کرتے ہیں تو آپ نے ضرور ایک سمال پرنٹ دستاویز کے نیچے ‘اکسپٹ’ بٹن پر کلک کیا ہو گا. کیا آپ اس کو پڑھنے کے لئے رکے تھی؟ میں تو نہیں روکا تھا. اور اگر ہم نے پڑھا بھی ہوتا تو ہمیں بہت سے عجیب قانونی الفاظ کا واسطہ کرنا پڑتا. (غالبا یہ اس ویب سائٹ کے لئے بھی درست ہے، لیکن ہم نے اپنی حق رازداری پالیسی شفّاف اور آسان فیھم بنانے کی پوری کوشش کی ہے [لنک ڈالئے]).

اگر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کے آزادی اظہار راۓ (اور مجموعی طور پر ایک اچھا معاشرہ) کے لئے حق رازداری ضروری ہے تو ہمیں یہ بہتر سمجھنے کی ضرورت ہے کے ہم کتنا حق رازداری چھوڑ رہے ہیں – اور اگر ہم سمجھتے ہیں کے یہ بہت زیادہ ہے تو ہمیں پھر احتجاج کرنا چاہیے. اگر ان کمپنیوں کی آپ کے ملک میں ایک غالب حیثیت ہے تو بھی یہ اپنے کاروبار کے لئے آپ پر ہی انحصار کرتے ہیں. اور ان میں کچھ، کبھی کبھی عوام کے دباؤ پر ضرور اقدام اٹھاتی ہیں. عوام کی طرف سے واویلہ کھڑا ہونے پر گوگل کو اپنے بز نیٹورک میں کافی بہتریاں لانی پڑیں اور بعد میں یہ گوگل پلس بن گیا، اور فیس بک کو اپنا بیکن ٹارگٹڈ اشتہاری سسٹم ہٹانا پڑا.

ریاستی اداروں اور سائبر باغی جارون لانیر کے بقول ‘جاسوسی کرنے/اشتہار لگانے والی سلطنتیں’ جیسے گوگل اور فیسبک کو اپنے بارے میں کم سے کم معلومات جمع کرنے کے لئے آپ کچھ سادہ تکنیکی اقدام اٹھا سکتے ہیں. جزوی طور پی اس تنقید کے جواب میں گوگل اور دوسرے سرچ انجنوں نے لوگو کے لئے گمنام سرچ کرنا زیادہ آسان کر دیا ہے. الیکٹرانک فرنٹیر فاؤنڈیشن نے جو کے اس کے بانیوں میں سے ہیں ایچ ٹی ٹی پی ایس نام کا ایک فائر فاکس ایکسٹنشن بنایا ہے جو کے اہم ویب سائٹوں کے ساتھ آپ کی مواصلات کو چھپاتا ہے. اپنی آن لائن رازداری بچانے کے لئے آپ ٹور نامی ایک مفت سافٹ ویئر استعمال کر سکتے ہیں.

فیس بک اور ‘بھلا دیا جانے کا حق’

لیکن اگر آپ نے ماضی میں اپنے بارے میں چیزیں شیر کی ہیں جو کے آپ اب سوچتے کے آپ نے نا کی ہوتیں؟ فیس بک پر اپنی نجی تصویروں کی ہی مصال لے لیجئے (فیسبک پر اب تصویروں کا دنیا کا سب سے بڑا مجموعہ ہے). سوچیں کہ آپ لڑکپن کی کسی حرکت سے شرمندہ ہیں اور آپ کو یہ ڈر ہے کے اس کی وجہ سے آپ کو یونیورسٹی میں داخلہ یا نوکری ملنے میں نشکل ہو گی. ہمیں پتہ ہی ہے کے مالکان کسی کو بھرتی کرنے سے پہلے آن لائن درخواست دہندہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. آپ کیا کر سکتے ہیں؟

فیسبک کا موجودہ حقوق اور ذمہ داریوں کا بیان یہ کہتا ہے کے آپ کی تصویریں آپ کی انٹلکچول پراپرٹی (آئ پی) ہیں لیکن ‘آپ ہمیں (فیس بک کو) اپنا فیس بک پر یا اس سے کنیکشن میں کیا ہوا کوئی بھی آئ پی مواد استعمال کرنے کا ایک غیر خصوصی، قابل متقل، سب لایسنسیبل، بغیر ریالٹی کا بین الاقوامی لائسنس دیتے ہیں (آئ پی لائسنس). یہ آئ پی لسینس اس وقت اختتام پذیر ہوتا ہے جب آپ اپنا آئ پی مواد یا اپنا اکاؤنٹ ختم کر دیں حتیٰ کہ آپ کا مواد دوسرے لوگوں کے ساتھ شیر ہوا اور انہوں نے یہ ڈیلیٹ نہیں کیا ہے.’ جی ہاں، آپ اپنا ماضی تو ڈیلیٹ کر سکتے ہیں لیکن اگر وح شرمندہ کرنے والی تصویریں آپ کے فیس بک پر دوستو کے ساتھ شیر ہوئی ہیں تو حتیٰ کے اپ ان سب سے یہ چیزیں ڈیلیٹ کروایں یہ تصویریں پھر بھی ادھر ہی رہیں گی. ایک پنڈورا بکس کو بند کرنا اس سے زیادہ آسان ہو گا.

کیا یہ اور آسان ہونا چاہیے؟ کیا ہمارا ‘بھلا دے جانے کا حق’ اور زیادہ مضبوط ہونا چاہیے؟ اگر ہاں تو اس کو کن چیزوں کا احاطہ کرنا کرنا چاہیے؟ اور کس طرح؟ مثال کے ٹور پر جرمنی میں ایک قانون یہ کہتا ہے کے ایک مخصوص مدّت گزر جانے کے بعد کسی بھی آدمی کی مجرمانہ اعتقاد کو رپورٹ نہیں کیا جا سکتا. بلکل ١٩٤٥ کے بعد کے جرمنی کی طرح ان افراد کو بھی نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ملنا چاہیے. جرمن شہریوں کے وکلاء نے گوگل سے پرانی سزاؤں کے ریکارڈ ہٹوانے کی کوشش کی. لیکن گوگل نے اس کی مزاحمت کی.

حق رازداری اور معلومات کی حفاظت کے معاملے میں ای یو دنیا کے سب سے اہم معیار مقرّر کرنے والوں میں آتا ہے. اس کی ڈیٹا پروٹیکشن ڈائریکٹو حق رازداری کے تحفّظ کے لئے ایک سنہری مثال سمجھی جاتی ہے. ٢٠١٢ میں یہ ایک نئے بہتر قانون کی تجویز سامنے لیں گے جس میں ادھر بتائیں گائیں بہت سی تکنیکی جدّتوں کو بھی شامل کیا جاۓ گا – اور ہو سکتا ہے اس میں کچھ عناصر ‘بھولے جانے کے حق’ کے بھی ہوں. یہ جس طرح سامنے آتی جاتی ہے ہم اس پی بھس کرتے رہیں گے.

‘ہم جاتے ہیں اور لوگوں کی زندگیاں تباہ کرتے ہیں’

عوام تک پہنچنے والے نجی زندگی کے سب سے نقصان دہ تفصیلات وو ہیں جو کے لاکھوں لوگو تک ماس میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہیں. ٢٠١١ کی گرمیوں کے دوران برطانیہ میں خوب حیرانگی کا عالم اس وقت پایا گیا جب یہ انکشاف ہوا کے روپرٹ مردوخ کے اخبارات نے خبریں بنانے کے لئے غیر قانونی طور پر بیشمار ستاروں، شاہی خاندان کے ممبران اور یہاں تک کے جرائم کے متاثرین کے موبائل فون ہیک کئے. لیکن اگر غیر قانونی اقدام نہ بھی استعمال کئے جایئں، فلمی اور فٹبال ستاروں کی نجی زندگی میں عمل دخل کا جواز – جن میں وو عام لوگ شامل نہیں جو ناگہانی طور پی ان خبروں کا حصہ بن جاتے ہیں – عوامی مفاد سے نہیں دیا جا سکتا. مردوخ ہیکنگ انکشافات کے بعد کئی سارے مشہور لوگوں نے، جن میں جے کے راؤلنگ اور ہیو گرانٹ جیسے ستارے اور گمشدہ بچوں کےوالدین شامل تھے، پبلک تحقیقات میں یہ بتایا کے کس طرح میڈیا نے ان کی نجی زندگی میں مداخلت کی. مردوخ کے اخبار نیوز آف دی ورلڈ کے ایڈیٹر گریگ مسکیو کو یہ کہتے ہوئے پاۓ جانے کی رپورٹ ہے کے ‘ہم یہ ہی کرتے ہیں، ہم جاتے ہیں اور لوگوں کی زندگیاں تباہ کرتے ہیں’. ہم اس بارے میں اگلے اصول میں اور زیادہ بات کرتے ہیں جو کے اس سے بہت قریب ہے اور آپ کی عزت بچانے کے معاملہ میں ہے [پ٩ کا لنک].

حق رازداری کے تحفّظ کے لئے جب متاثرہ لوگ وکلا کی مدد سے پبلیکشن بلاک کرتے ہیں تو ٹیبلاید کے ایڈیٹر یہ احتجاج کرتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار راۓ کو روکنے کی سازش ہے. کبھی کبھی یہ سچ ہوتا ہے: امیر اور طاقتور لوگ (اور کارپوریشنیں) ان حقیق کو چھپانا چاہتی ہیں جو کے پبلک کو پتا ہونی چاہیے. اکثر یہ بیکار ہوتا ہے: جو چیز ایڈیٹر ‘آواز مفاد’ قرار دیتے ہیں وح اس سے زیادہ کچھ نہیں جو کے ‘وو جس میں پبلک کی دلچسپی ہو’. یورپ میں عدالتیں انفرادی فیصلے دیتی ہیں جو کہ انسانی حقوق کے یورپی کونونشن کے دفع ١٠ کے اظہار آزادی راۓ کے حق کو دفع ٨ کے حق رازادی سے بیلنس کرتا ہو.

لیکن اس مسئلے کا حل پورے معاملے کے بعد عدالتوں پر کو چوڑا جاۓ؟ جب تک ہم اس قسم کے اخبار خریدتے رہیں گے اور سکینڈل پھیلانے والی ویب سائٹوں پر جاتیں رہیں گے ہم ان کی غلط حرکتوں کو اورشے دیں گے. اگر ہم اصولی طور پر ان انکشافات کے خلاف ہیں لیکن پر بھی بہت جوش اور دلچسپی سے ان کو پڑھتے ہیں تو ہم منافق ہیں. آن لائن میگزین سلیٹ کے ایڈیٹر مائیکل کنسلی جن کو بل کلنٹن اور مانیکا لیونسکی کے جنسی تعلقات کی تفصیلات ظاہر کرنے پر احتجاجی ای میلز آتی تھیں اپنے تجربے کو اس اس طرح بتاتے ہیں کے ‘ان کی ایمیل کہتی ہیں نہیں نہیں لیکن ان کے ماؤس کلک کہتے ہاں ہاں!’

اسی لئے آزادی اظہار راۓ کے اس حصے میں ہونے والی چیزوں کا انحصار صرف حکومت، عدالتوں یا ریگولیٹروں کے اقدامات پر نہیں. یہ ہمارے اعمال پر بھی ہے. ہم ایسے اخبارات کو خریدنے، ایسی ویب سائٹوں پر جانا اور سوشل میڈیا میں پھیلانے سے انکار کر سکتے ہیں. ہم اپنی پرائیویسی سیٹنگ زیادہ سخت کر سکتے ہیں اور بہتر سیٹنگ کا مطالبہ کر سکتے ہیں. ایک بدلتی ہوئی اور نئی ٹکنالوجی کی وجہ سے زیادہ کھلی دنیا میں بھی حق رازداری کا ایک کم سے کم لیول نہ صرف ایک ضروری چیز ہے بلکہ یہ آزادی اظہار راۓ کے لئے بھی ایک اہم شرط ہے.


تبصرے (0)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    If religion were just a matter of recognizing a particular prophet and performing particular private rituals then this formulation would be pretty good.

    One man is a Jew and recognizes the prophet Moses. He prays to a God whom he takes to be the only God.

    A Christian is much the same except that he replaces Moses with Jesus.

    A Muslim replaces Jesus with Mahommed.

    And a Hindu recognizes thousands of Gods.

    But it’s not at all like that; it’s not at all private.

    A little while ago young Muslim men frequented the beaches in southern Sydney and approached the girls in their swimming costumes and told them they were "sluts” and "whores.” When the lifesavers told them to cool it they bashed the lifesavers. The lifesavers! Bashing lifesavers is more aggressive towards the society-as-a-whole than defecating on the tomb of the unknown soldier.

    And eventually there were huge battles between groups of Muslim and non-Muslim young men.

    It is not just a matter of private prayer. It is a matter of what behaviour and practices are allowed in public. It is a matter of raising money to support the ISIS in Syria and Iraq.

    It is a matter of establishing schools to segregate your kids, and in other ways brainwashing and them.

    And it is a matter of killing people who write things about your prophet that hurt your feelings. Ask the writers and film makers who can’t go to the shops without an armed guard.

    Since certain religions have embraced modernity and since others (one at least) are determinedly medieval, I don’t think that we can "rub along.” Sooner or later the determinedly medieval lot will do enough things like flying airplanes into the World Trade Centre that a civil war will break out. There will be people like Neville Chamberlain who will pompously announce "peace in our time,” but there can be no peace.

  2. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    I agree with imos. It is freedom that is at issue here, not respect. Parsing respect into two different forms, “recognition respect” and "appraisal respect” is leads away from a full understanding what is actually at stake.

    Misplaced respect can be a very dangerous thing. As an extreme example, say I am walking down the street with a friend, and we happen upon someone being beaten. At my urging, we jump to his aid, and pull his attacker away, and restrain the attacker. Another bystander calls the police. Meanwhile, the person who was being attacked, pulls a gun from his pocket, and shoots both his attacker, and my friend, wounding the attacker, and killing my friend. He also fires a shot at me, but it misses. Then he gets up and runs away.

    Before the police arrive the "attacker” who I no longer need to restrain, because he is wounded, says to me with a world weary sadness, that the other guy had threatened to rob him, and he was in the process of defending himself, when me and my friend showed up and intervened, on the would be robbers behalf.

    Who exactly deserves respect in this case? Me? My friend? No. Only the guy laying on the ground with the bullet in him. And who is free? Me? No, I’m going to be talking to the police for a while, and living with the guilt of my friend’s death for the rest of my life. The misunderstood "attacker”? No. He’s going to the hospital, and will be paralyzed for the rest of his days, because the bullet nicked his spinal cord. My dead friend? Nope, not really. Although some would say that death is a kind of freedom, I suppose.
    The only free person among us is the robber, who by the way is never caught for this crime. In the real world, there is no such thing as “recognition respect” In this usage of the word respect, there are two possible meanings: "Esteem for or a sense of the worth or excellence of a person” or "deference to a right, privilege, privileged position, or someone or something considered to have certain rights or privileges”.

    With respect to "respecting the believer, but not the belief, one needs to be careful. Respect need not be granted to everyone. It must be earned. And freedom is a gift, granted to us only by our circumstances. It’s nice to think that one day the world may be a fairer, better place to live. But each of us must decide how much we are willing to do to try and make it so, and be prepared to get sand kicked in your face from time to time, because this world is not perfect, and it never will be.

    Oh, and although I have only today discovered this site, I love it and (almost) everything it stands for! Snap decision? Yes, but that is my style.

  3. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    No, no, no!

    It’s a fundamental part of my freedom that I shouldn’t have to respect anyone. Force me to respect anyone and you’ve taken my freedom away.

    It may be true that many of us who campaign for free speech do indeed respect many of the people whose beliefs and opinions we disagree with – but we should not be forced to do so. If free speech is to mean anything substantial, then it absolutely should allow us the right to be disrespectful towards the believer as well as towards their beliefs. There is no balancing to be done – this is a point of principle, not something to be bargained away in our quest to be allowed the right to criticise people’s beliefs.

    Tempting as it might be to appease the opponents of free speech by reassuring them that our questioning of their beliefs does not mean we are being disrespectful to them as people, we should never give ground on the principle that we should have the fundamental right to decide for ourselves who we respect and who we do not respect.

    The only way we need to respect the believer is in regard to respecting their freedoms, but that’s more about adhering to the principles of freedom rather than about respecting them as a person.

    Hopefully, most people will choose to be respectful towards the believer – but this should remain entirely an issue of individual choice. Nobody should have an automatic right to our respect – for to enforce such a right would be to take freedom away from everyone else.

    • آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

      Hi imos

      thanks for this thoughtful comment. Might your problem with the word ‘respect’ be the definition? Because if we take ‘respect’ at its most basic – accepting that others are different and not wish to harm them – then I cannot see how we can live in a peaceful society without respect. If we are talking about ‘respect’ as a feeling of appraisal, then I absolutely agree with you.

      What are your thoughts on this? If we do not show respect to everyone, how can we uphold the human right that everyone’s dignity is untouchable? I look forward to reading your reply.

      • آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

        Hi JB,

        Thanks for replying to my comment!

        I think we should respect other people in the sense that we allow them to have their freedoms – but, as I say, that’s more about respecting a principle than about respecting a person. So long as you allow people their freedoms, then why shouldn’t we be able to live in a peaceful society? The minute someone uses violence, they are taking away someone else’s freedoms, but we can maintain our freedoms without any logical requirement to respect each other.

        As for people’s dignity, I don’t recognise any fundamental human right to maintain one’s dignity. People lose their dignity for all sorts of reasons – usually as a result of their own unprincipled behaviour. If you stick to decent principles, then there’s no reason why your dignity should be harmed by what anybody else does or says.

  4. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    I agree with the idea of this principle in the sense that every single individual has the right to believe whatever he or she feels like. But I also think that just by promoting this ideal the world is not going to change positively. I believe it is necessary to approach today’s ignorance by fighting it with education, respect, and tolerance. If these methods are used to reinforce the principle I believe attempts to impose ones beliefs or ideologies into others will be reduced, and a more harmonious lifestyle will be achieved. Moreover, I do find some discrepancies within this principle. Just like other individuals have posted and commented, what if the ideology, religion, or belief practiced by an individual or group affects or threatens others? It is stated within the explanation of the principle that we should accept this “one belief” (the principle) above others in other to coexist freely and fight for the higher good. The higher good being that “everyone should be free to choose how to live their own lives, so long as it does not prevent others doing the same.” Well, this sounds kind of comforting, but there is so much to consider. Who or which authorities will provide the guidelines and enforce them? And what type of guidelines? Since something might be insulting for Christians but maybe not for Scientologists. And is Scientology considered a religion? If it is, which ones are not, and how are people following these other religions or ideologies supposed to contribute or express themselves?

  5. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    This belief is very important because predominant ideas in society can change over time, and we must allow voices to be heard, even if they dissent against commonly held ideals.

  6. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    I believe that every single person is entitled to their own religious and spiritual belief and others should respect them as believers as well as the content on their belief – as long as it doesn’t cause any harm to those around them.

  7. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    respecting all religion will result to a better and more tolerant world. I strongly agree with the statement

  8. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    I think this concept is a nice idea however some theories are insulting and counter productive. If for example, one attempts to justify slavery, the holocaust, discrimination or something of the sort, should the believer be respected?

  9. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    I don’t know if it is actually possible to commit to this principle. For what do we mean by "respect”? I think the article focuses too much on religion and doesn’t assess other "taboos” related to politics and that are part of collective memory. Is it possible to respect person that believes that Nazism is good and that it should be implemented? What do we think of those people? In many countries you can be charged for saying a statement like that; or among other consequences, people will decide not to speak to that person or to alienate him/her from society. In both cases, there are incentives for an individual not to speak his mind, because his thoughts are not against a specific belief but to other humans. Could we respect a person who thinks like this? Could we trust him or her? Could we be friends with a person that thinks that a race is better than another?
    Humanity witnessed how thoughts like these became politics in the XX century and the lessons were hard to learn. Does allowing an individual to revisit these ideologies represent a risk, that at some point that that horrendous chapter in history can happen again?

  10. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    Freiheit, und somit auch das Recht zur freien Rede, ist nur moeglich, wenn die Freiheit eines jeden Individuums nur so weit geht, dass sie niemals die Freiheit eines anderen Individuums einschraenkt. Somit existiert keine grenzenlose Freiheit. Fanatische Redner, die dazu aufhetzen, die Freiheit anderer einzuschraenken, sollten keine Redefreiheit geniessen. In diesem Falle respektiere ich weder ‘his content of belief’ noch den ‘believer’.

  11. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    I think most of the people don’t have the knowledge about other religions and have therefor a hard time to respect religions. Today this principle should be applied world wide as we have more knowledge about the world, its different kinds of people, and their religions. As already mentioned in other comment the past have shown it does not work this way, but let us hope the future will be different.

    • آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

      I agree with what Sara is saying. Religion is a difficult topic to discuss. However, it should be the case that when people voice their opinion others must respect it however this does not necessarily mean that they agree!

  12. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    In my opinion this is a principle that should by applied World wide. Everyone has opinions and everyone should be entitled to one. This does however not mean that everyone should agree but at least people will have the opportunity to express their thoughts. It is all about respecting one another. However, unfortunately as the past has proven this is not always the case and implementing this principle will be one of the most difficult due to factors such as religion.

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی