06مذہب

ہم ایمان والے کی عزت کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ عقیدے میں موجود مواد کی بھی۔

مذہب اور آزادئ راۓ

مذہب ہمیشہ سے آزادی راۓ کے لئے ایک مسئلہ رہا ہے اورآزادی راۓ مذہب کے لئے. یہ کہنا معقول ہو گا کہ آج ہم جسے مذہب کہتے ہیں اس کے مشابہ کوئی چیز ہو گی جس سے پہلی مرتبہ انسانوں نے ازخود اپنی قوت گفتگو پر بندش لگائی ہو گی. ایسی کوئی ثقافت ہے جس میں کسی قسم کی مقدس ممانعت یا بندش نہیں؟ ماورائے اوقیانوس کے مغرب میں ١٧ویں صدی سے لے کر   روشن خیالی(جسے مغرب میں ‘انلایٹنمنٹ’ کہا جاتا ہے) تک آزادئ اظہار راۓ سے متعلق تمام بحث مذہبی حکمرانی اور عداوت کے بارے میں تھی.

٢٠ ویں صدی کے درمیان میں عام طور پر یہ سوچا جاتا تھا کہ جدیدیت حطمی طور پر غیر مذہبیت کی طرف لے کر جاۓ گی. لیکن مذہب کبھی بھی نہیں گیا. یورپ میں آزادئ راۓ سے متعلق  ہمارے دور کے چند سب سے سنگین تنازعات اسلام، عیسائیت اور الحاد کی سنسنی خیز تکون میں شروع ہوۓ ہیں. آپ صرف بھارت اور مشرق وسطیٰ کی طرف نظر ڈالیۓ یہ دیکھنے کے لئے کہ مذہب سے متعلق الفاظ، تصاویر اور علامات دوسرے گروہ (جن کی تعریف مکمل یا جزوی طور پر مذہب کی بنا پر کی جاۓ – یہودی، ہندو، سکھ، جین، احمدی) کے خلاف دشمنی اور تشدّد کا موقع فراہم کرتے ہیں.

جن چیزوں کو ہم مقدس مانتے ہیں  ان کا شمار ہماری سب سے اہم چیزوں میں ہوتا ہے. پولینڈ اور روس میں مذہبی گفتگو پر بندش لگانے کا قانون “مذہبی احساسات کی دل آزاری” کا ذکر کرتا ہے- اور یہ احساسات انسانوں کے سب سے پختہ احساسات ہیں. مسلمانوں کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ حضرت محمّد کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز رکھیں. مرحوم پوپ جان پال ٢ کو حضرت مریم سے دعا کرتے ہوے سننا ایسا تھا جیسے ایک بیٹا اپنی ماں سے مخاطب ہو. حتیٰ کہ غیر معتقد کے لئے بھی یہ بےحد دلگداز تھا.

تاریخ میں اکثر معاشروں نے ان احساسات کو مضبوط کیا ہے اور اپنے سماجی اور سیاسی نظام کو ڈھارس دینے کے لئے ممنوعات رائج کی ہیں. جدید ملکوں میں ان ممنوعات نے توہین مذہب قوانین کی صورت اختیار کی ہے جو تمام کی بجاۓ چند مذاہب کا دفاع کرتے ہیں. ٢٠٠٨ میں جا کر برطانیہ کے توہین مذہب قانون کو -جو صرف عیسائیت  کا دفاع کرتا تھا – منسوخ کیا گیا. بیشتر مسلمان اکثریت ممالک میں توہین مذہب کے قانون رائج ہیں جو یا تو صرف اور یا زیادہ تر اسلام کا تحفّظ کرتے ہیں. تعزیرات  پاکستان کی دفعہ ٢٩٥ یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت محمّد کی “توہین”  “خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش، یا انکے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ جملہ کہنا جس سے انکے بارے میں بُرا تاثر پیدا ہو، یا  ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں” ان سب کی سزا موت ہے. ایک عورت بیبی آسیہ کو اس دفعہ کے تحت سزا موت سنائی گئی. کئی مسلمان ممالک میں ایسے تحفظات کو انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کی شرائط و ضوابط میں شامل کیا جاتا ہے.

مذاہب کی توہین؟

 جیسے جیسے تمام لوگ یا تو سماجی طور پر یا انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے کے ہمسائے بنتے جا رہے ہیں، ہم ممنوعات کے بارے میں دو طریقے اختیار کر سکتے ہیں. ہم تمام تفریقی ممنوعات کو ختم کر سکتے ہیں جو ایک علاقے میں پاۓ جانے والے صرف ایک یا چند مذاہب کا تحفّظ کرتے ہیں؛ یا ہم تمام مذاہب کو مساوی طور پر ان کی زد میں لائیں اس بنیاد پر کہ “آپ میری ممانعت کا احترام کریں اور میں آپکی ممانعت کا”. مثال کے طور پر برطانیہ میں مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں نے یہ مطالبہ کیا کہ توہین مذہب کے قانون کو وسیع کر کے اس میں اسلام کو بھی شامل کیا جاۓ. بین القوامی سطح پر اسلامی کانفرنس تنظیم – جو ٥٦ مسلمان اکثریت ممالک کی جماعت ہے- نے کئی سالوں تک اقوام متحدہ پر زور ڈالا کہ وہ “نۓ لازم معیار” کا انتخاب کرے جو “مذاہب کی توہین” پر پابندی لگائیں.

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “مذہب” سے کیا مراد ہے؟ تین مذاہب ابراہیمی کے علاوہ زیادہ تر لوگ ہندو مت، بدھ مت، داؤ مت، سکھ، جین، اور یوروبا جیسے قائم مذاہب کا بھی اعطراف کرتے ہیں. کنفیوشن بھی اس کا اہل ہو گا قدامت اور پیروکاری کی بنیاد پر، اگرچہ کچھ لوگ اس پر اعتراض کریں گے. لیکن سائنٹالوجی کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے؟ اور علم نجوم کے متعلق؟ یورپ کے غیر مذہبی لوگ اکثر امریکیوں کی سادہ لوح مذہبیت کا مزاق اڑاتے ہیں، لیکن ایک سروے نے  ظاہر کیا کہ فرانس، جرمنی، اور برطانیہ کے نصف سے زائد باشندے علم نجوم پر یقین رکھتے ہیں. اور ان ٣٩٠،٠٠٠ لوگوں کے متعلق کیا کہ سکتے ہیں جنہوں نے ٢٠٠١ کی مردم شماری میں اپنے مذہب کو “جڈاۓ” درج کروایا.

اس کا تعین کون کرتا ہے کہ کونسا مذہب “سنجیدہ” ہے؟ امریکہ میں سائنٹالوجی کو باقی مذاہب کی طرح قانونی طور پر مذہب قرار دیا گیا ہے ؛ لیکن جرمنی میں سائنٹالوجی کو ایک خطرناک فرقہ قرار دے کر ممنوع کردیا گیا ہے. (یہاں تک کہ ایک جرمن سائنس دان کو امریکہ میں مذہبی عقوبت کی بناہ پر پناہ دی گئی). مذہب ہونے کی اہلیتکیا اس بناہ پر ہوتی ہے کہ وہ لمبے عرصے سے ہو اور اس کے بیشمار پیروکار ہوں؟ اس لحاظ سے تو پہلی صدی عیسوی میں عیسائیت اس کا اہل نہ تھا. یا پھر یہ کہ آپ کے پاس لوگوں سے خود کو سنجیدہ منوانے کی طاقت ہو؟

ظاہر سی بات ہے کہ اہلیت کا معیار یہ نہیں ہو سکتا کہ کس مذہب کو عام طور پر مناسب سمجھا جاتا ہے. کیونکہ مذہب اپنی تعریف کے اعتبار سے عقل پر فوقیت رکھتا ہے. بیشتر مذاہب کے علماء یہ دعوا کرتے ہیں کہ عقل ایمان کا ساتھ دے سکتی ہے اور اس کو تقویت بخشتی ہے؛ لیکن یہ ایک اور بحث ہے. مزید براں، قائم کردہ مذاہب کے چند بنیادی دعوے ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں.

اور ملحدوں کے متعلق کیا کہ سکتے ہیں؟ کیا ان کے دعووں کو برابر تحفّظ کا حق نہیں؟ برطانیہ کے پبلک آرڈر ایکٹ کے تحت انھیں یقیناً ہے، اس کے زیر ایک “مذہبی گروہ” کی تعریف یہ ہے کہ “لوگوں کا گروہ جس کی تعریف مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ہو یا مذہبی عقیدہ نہ ہونے کی بنا پر”. اس طرح غیر مذہبی ہونا مجھے مذہبی بنا دیتا ہے. مؤرّخین یہ بھی کہتے ہیں کہ کئی مذاہب کی پیروکاری صرف عقیدے کی بناہ پر نہیں ہوتی بلکے رسوم پرستی کی بناہ پر. اس مذہبی لحاظ سے آپ خدا پر یقین رکھے بغیر بھی یہودی ہو سکتے ہیں.

یہ بے وقعت اعتراضات نہیں ہیں، نہ ہی موضوع سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے. جس کو مذہب کہا جا سکتا ہے اس کی حدود اتنی وسیع  ہیں اور بدلتی رہتی ہیں؛ اور وہ جو سوالات اٹھاتا ہے وہ انسانی زنندگی کے لئے اتنے اہم ہیں کہ اس پر پابندی لگانے کی کوئی بھی کوشش ہمارے علم کے حصول کو (اصول ٥ دیکھیۓ)، کن اختلافات پر ہم کھل کر گفتگو کر سکتے ہیں (اصول ٤ دیکھیۓ)، اور ہم آزاد، مختلف میڈیا کے ذریعے کونسی عوامی پالسی کے اختیارات پر کھل کر بحث کر سکتے ہیں(اصول ٣ دیکھیۓ)، ان سب کو بہت محدود کر دے گی.

اقوام متحدہ کی کمیٹی براۓ انسانی حقوق اس سے اتفاق کرتی ہے..بین الاقوامی معاہدہ براۓ شہری و سیاسی حقوق  کی دفعہ ١٩ کی مستند تشریح یہ بیان کرتی ہے کہ “کسی مذہب یا اعتقادی نظریے کا احترام نہ کرنے پر، جس میں توہین مذہب کے قوانین بھی شامل ہیں، پابندی لگانا معاہدے سے ہم آہنگ نہیں”. ایسے اظہارات، اگرچہ، دفعہ ٢٠ کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے جو یہ پابندی لگاتی ہے کہ “کوئی بھی قومی، نسلی یا مذہبی نفرت جو تفریق، عداوت یا تشدّد پر اکساۓ”. یہ پھر بھی  تشریح کے لئے وسیع موضوع باقی چھوڑتی ہے، لیکن کم از کم اس کا معیار کسی بھی مذہب کی توہین (یا “بدنامی”) نہیں ہے.

دو طرح کا احترام

تاہم یہ صرف آدھی کہانی ہے کہ قانوناً پابندی نہ لگائی جاۓ جیسا کہ ان تمام تعارفی مضامین میں اصرار کیا گیا ہے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی ایسی چیزکے متعلق، جو دوسرے مردوں اور عورتوں کے لئے اتنی اہم ہے (یعنی مذہب)، کچھ بھی اور جتنی بھی ایذا رسانی کے ساتھ کہتے پھریں. ساتواں اصول فلسفی سٹیفن ڈاروال کی مفید تفریق پر انحصار کرتا ہے جس میں وہ دو طرح کے احترام کا ذکر کرتے ہیں. جب ہم بلا شبہ اور بلا شرائط یہ کہتے ہیں کہ “ہم معتقد کا احترام کرتے ہیں” تو اس سے مراد وہ ہے جس کو ڈاروال نے “اعترافی احترام” کہا ہے. لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ “لیکن ضروری نہیں کے اس کے عقیدے کے مواد کا بھی احترام کیا جاۓ” تو اس سے مراد وہ ہے جسے ڈاروال نے “تشخیصی احترام” کہا ہے.

تو اس اصول کے مسودے کے پہلے حصے کے معانی ہیں: میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ اگرچہ آپ کسی ایسی چیز پر اعتقاد رکھتے ہیں جسے میں خطرناک بکواس مانتا ہوں، اور یہ خواہش رکھتا ہوں کہ آپ کو راضی کروں کہ آپ اس پر یقین نہ رکھیں، پھر بھی آپ کی وہی بنیادی انسانیت، وہی فطری حرمت، اور وہی نا قابلِ منفک عالمی حقوق ہیں جو میرے ہیں. آپکے انسانی اور شہری حقوق، آپکی قانون کے سامنے برابری، وہ احترام جو آپکا بطور انسان حق ہے؛ ان میں سے کوئی بھی ذرّہ یا ڈھیلے برابر بھی اس وجہ سے کم نہیں ہونا چاہیۓ.

یہ (اعترافی احترام) یقیناً اس بنیادی آزادئ مذہب کو بھی قبول کرتا ہے جس کی تعریف معاہدے کی دفعہ ١٨ یوں کرتی ہے کہ مذہب یا عقیدے کو رکھنے یا اپنانے کی آزادی، اور اس کا اظہار “عبادت، عقیدت، عمل اور تعلیمات” کے ذریعے انفرادی یا اجتماعی طور پر، خلوت یا ظاہر طور پر کرنا.

معتقد کے لئے اس بلا شبہ احترام میں شاید اس بات کا بھی تحقیقی اعتراف موجود ہو کہ اکثر، اگر تمام نہیں، انسان کچھ ایسے عقیدے رکھتے ہیں جن کی سائنسی تصدیق نہیں کی جا سکتی. ذہنی اور نیوروسائنس کی تحقیقات یہ تجویز کرتی ہیں کہ ایک مذہبی حصہ دماغ میں “فطری طور پر” پایا جاتا ہے. میں نے سائنسی ملحد رچرڈ ڈاکنز کو یہ اعتراف کرتے سنا ہے کہ مذہبی عقیدہ ماضی میں ایک ارتقائی فوقیت رکھتا تھا.

مزید براں، روز مرہ انسانی تجربے سے ہم اس حقیقت سے شناسا ہیں کہ اگر لوگ اپنے وجود کے کسی کونے میں ایسی چیزوں پر بھی ایمان رکھتے ہوں جو باقی سب کو جھوٹی ظاہر ہوتی ہوں، اس سے ان کی دیانت میں بحیثیت منیب، مستری حتاکہ بیوی یا شوہربھی کوئی فرق نہیں پڑتا. ظاہر ہے کہ ان کا نظریہ ہمیں جتنا خلافِ عقل اور غلط لگتا ہے، جتنا زیادہ وہ ہماری زندگی میں مداخلت کرتا ہے، اتنا ہی ہمیں مشکل کا باعث معلوم ہوتا ہے. آپ کو شاید  اس بات پر اعتراض نا ہو کہ خلقیت پر یقین رکھنے والا آپ کا طبیب دندان ہے لیکن آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ آپکے بیٹے کو بیالوجی پڑھاۓ. ایک ہاۓ فائیور (جو یہ مانتا ہے کہ ٢ +٢ = ٥ ہوتا ہے) – کا کسی کمپنی کا منیب ہونے سے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں. لیکن زندگی کے اور وسیع شعبے ہیں جن میں ایسی مشکلات، عملی طور پر، رونما نہیں ہوتیں. ہم معتقد کا احترام، عقیدے کا احترام کئے بغیر کر سکتے ہیں.

تشخیصی احترام

تشخیصی احترام کرنا زیادہ مطالبہ کرتا ہے. یہ ایسی قسم ہے جو کہتی ہے “میں آپکی مہارت بحثیت فوٹبالر؛ آپکی دلیری بحیثیت سپاہی؛ آپکا لگاؤ بحیثیت نرس کا احترم کرتا ہوں”. تو اصول کا دوسرا حصہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم کسی مذہب کے دلائل، کامیابی اور اعمالِ حاضرہ کی تشخیص کریں. ایسی جانچ پڑتال کا نتیجہ مکمّل تردید بھی ہو سکتا ہے – جیسا کہ ایک ملحد مصنف نے مبینہ طور پر کہا “میں آپکا اتنا زیادہ احترام کرتا ہوں کہ میں آپکے فضول عقائد کا احترام نہیں کر سکتا. دوسری انتہا پر اس کا نتیجہ مکمل قبولیت بھی ہو سکتا ہے: میں آپکے مذہب کے دلائل سے اتنا مطمئن ہوں کہ میں اسے قبول کر لوں. دونوں صورتوں میں، ہمیں آزادی ہونی چاہیۓ کہ ہم کسی اور تمام مذاہب کے دعووں کے متعلق کھل کر بلا حدود بحث کر سکیں، یہاں تک کہ کسی اور مذہب کو یا الحاد کو تسلیم کیا جا سکے، انتقام کے خوف کے بغیر. دنیا کے بیشتر حصوں میں ایسا نہیں ہوتا. جس مذہب میں آپکی پیدائش ہوتی ہے یا جو آپکی قوم میں پایا جاتا ہے، اس کے متعلق سوال کرنے یا اس کو چھوڑنے پر آپکو سزا سماجی خارجت یہاں تک کہ موت کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے.

تشخیص کے اورغیر متقابلانہ طریقے بھی  ہیں جن کے نتیجے میں شرائط کے ساتھ احترام کیا جا سکتا ہے. ان میں سے ایک کا ذکر جرمن فلسفی جرگن ہبرماس نے کیا ہے. “باہمی قدر شناسی جو مشترکہ شہریت کو تشکیل دیتی ہے” اس پر غور کرتے ہوے ہبرماس کہتا ہے “غیر مذہبی شہریوں سے خاص  توقع ہے کہ وہ مذہبی کہاوتوں کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ شاید وہ ان میں بھی لغوی مواد، اور خفیہ ذاتی الہام دریافت کریں جن کو غیر مذہبی تذکرے میں متعارف کروایا جا سکے”. اگر میں آپ  کی مذہبی زبان کا ترجمہ اپنے الفاظ میں کروں، تو شاید مجھے معلوم ہو کہ آپ جو کہ رہے ہیں میں اس سے اتفاق کر سکتا ہوں- یا کم از کم  یہ کہ اس میں سچائی کا کچھ حصہ ہے. یہ خیال کوئی جدید خیال نہیں: اس سوچ کا جرثومہ آپکو تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی بادشاہ اشوکہ کے بارھویں فرمان میں بھی ملتا ہے جہاں انہوں نے تجویز کیا کہ لوگ دوسرے مذاہب کی “بنیادوں” سے سیکھیں.

تشخیصی احترام کی ایک حقیقی قسم وہ بھی ہے جس کو عقیدے کے مواد سے الگ کیا جا سکتا ہے. مجھے آپ کے نظریات اپنی زبان میں ترجمہ کرنے کے باوجود بھی خلاف عقل معلوم ہو سکتے ہیں، لیکن میں پھر بھی آپکے ذاتی چال چلن کو سراہ سکتا ہوں اور اس کا بھی اعتراف کر سکتا ہوں کہ آپکے اچھے چلن کی وجہ – آپکے اپنے خیال سے (اور کسی اور کو اس سے بہتر کیا پتا؟)- زیادہ تر یا مکمل طور پر آپکے نظریات ہیں. آپ کے اعمال کو میں اپنے معیار کے مطابق اچھا، دلیر اور عظیم مانتا ہوں لیکن ان کی بنیاد کو میں سمجھ نہیں سکتا. فرز کیجیۓ کہ ہاۓ فائیور (جو یہ مانتا ہے کہ ٢ +٢ = ٥ ہوتا ہے) کے چھوٹے لیکن منتخب گرجے کے ٩٩% اپنے معاشرے کے کمزور اور پسماندہ لوگوں کے لئے بے لوث اور غیر معمولی خدمات انجام دیتے ہوں اور ہمیشہ اصرار کریں کہ یہ ان کے عقیدے کا فرمان ہے. کیا ہمارے دل میں ان کے رویّے کے لئے ایک حقیقی تشخیصی احترام نہیں ہو گا، اگرچہ ہم یہ اصرار کرتے رہیں کہ ان کے عقیدے کا بنیادی ستون جھوٹا ہے؟

اگر ہم نہ ہی عقیدے اور نہ ہی معتقد کے لئے ان میں سے کوئی بھی تشخیصی احترام رکھیں، پھر بھی ہم بلا شرائط معتقد کے لئے اعترافی احترام ضرور رکھیں گے. اس تفریق کو قائم کرنا وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے تمام مذاہب اور غیر مذہبی لوگ مل جل کر آزادی سے زندگی گزار سکتے ہیں.

کیا یہ ایک عقیدے کو امتیاز دینا نہیں؟

اس اصول کا مسودہ تمام معتقدین سے وہ مطالبہ کرتا ہے جو اکثر کو بہت مشکل لگتا ہے: یعنی اپنے ذات اور اپنے عقیدے کے درمیان تفریق کرنا اور اسے قائم رکھنا. اور آخر میں یہ اس اعتراض کو بھی دعوت دیتا ہے: کیا آپ دراصل ہم سے یہ نہیں کہ رہے ہیں کہ ہم ایک عقیدے کو باقی تمام پر فوقیت دیں؟ یہ کہ تمام لوگوں کو اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا چاہئیے. تحممل کی آزادانہ بھلائی پر یقین یہ غیر معمولی مطالبہ کرتا ہے کہ ہمیں دوسروں کو تسلیم کرنا چاہئیے چاہے وہ ایسے عقائد رکھتے ہوں جنھیں ہم عقلاً اور اخلاقاً غلط سمجھیں.

جو غلط ہے اس کو تسلیم کرنا صحیح کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: کیونکہ اس میں سب کی بھلائی ہے؛ یعنی ہر ایک کو آزادی ہونی چاہئیے کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار سکیں، جب تک اس سے دوسروں کو ایسا کرنے میں رکاوٹ نہ ہو. تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم اپنا “واحد صحیح نظریہ” دوسروں پر مسلّط کرنے کی خواہش رکھیں تو ہم ایک دوسرے کو مارنے اور ایک دوسرے پر جبر کرنے لگتے ہیں. تو اگر غور کیا جاۓ تو یہ ایک اور “صحیح نظریہ” نہیں ہے بلکہ یہ ہی وہ واحد صحیح نظریہ ہے جس کا مقصد یہ ممکن بنانا ہے کہ انسان مزید صحیح نظریوں کے تحت زندگی گزار سکیں.

تو یہ ساتویں اصول کا مسودہ اس ایک (غیر مذہبی) عقیدے کو باقی تمام پر فوقیت دیتا ہے. لیکن یہ اسے پوچھ گچھ سے بالاتر نہیں رکھتا. اگر آپ اس پر سوال اٹھانا یا بکل اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو یہاں سے شروع کیجئے. ممبر آپکا ہے.


تبصرے (0)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    What about violence against animals?Is it a less important?

  2. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    What does this have to do with free speech?

  3. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    Violence is justified in defense of life in response to violent provocation. While I believe in the Christian principle of pacifism in the way I lead my life, I cannot say that violence to defend life and self and community is aways evil. In 1939 war was the right course of action by the British and French governments against Nazi aggression. But war should never be the first course of action. We need global peace, but we should never ignore aggression for its sake.

    • آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

      Sure, World War II would be a great example of how violence can be used in order to prevent life, but unfortunately not all the conflict situations are as black and white. Take for the nations in Africa. The borders of the countries were drawn arbitrarily which left some ethnic groups separated by border and other mixed. Some found themselves on the wrong side of the border. Eventually that led to massive ethnic clashes leaving millions up to this day dead. Violence in Africa happens daily and it needs to be stopped, but who is wrong and who is right? Sure we can keep blaming 20th century European Imperial nations for their ignorance but that wouldn’t help much. So the question is who do we help? Who deserved to get the support of the West and who deserves to be hated? Unfortunately nowadays not least effort is put into trying to determine that and the only factor which makes the biggest difference national interest

  4. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    très intéressant et utile dans ce monde de violence. c est un bon message a passe

  5. آپ کا تبصرہ ماڈریشن کے مراحل میں ہے۔

    Soy un ciudadano colombiano, siempre afortunado y por mi corta edad (19 años) nunca he tenido encuentros directos con violencia de carteles de drogas o cualquier grupo subversivo. Sin embargo, durante toda mi vida he visto como mi país ha sido afectado por la violencia y los grupos contra la ley. La violencia no puede ser tolerada en ningún sentido! Acaba familias, vidas, países enteros.

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی