تنازعہ اور تہذیب
فرق و تفریق کے ساتھ رہنا مشکل ہوتا ہے. ہمارے عزیزعقائد، اقدار اور طرز زندگی ایک دوسرے سے صرف مختلف ہی نہیں ہوتے بلکہ متنازعے بھی ہو سکتے ہیں. ہمیں اس سے قدرے ڈرنا نہیں چاہیۓ. تنازعے آزادی کا ایک کلیدی جز ہیں اور تخلیق کا ذریعہ ہوتے ہیں. اگر ہم میں کوئی فرق نہ ہو تو ہم اپنی پسند کا اظہار نہ کر سکیں گے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی آزادی ہو گی. ہمیں تنازعے ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ عمل مہذب طریقے سے انجام دیا جاۓ.
اس اصول کے مسودے کی یہ ہی روح ہے- جو کہ باقی تمام اصولوں کی طرح بحث کا منتظر ہے. ہمیں ہر قسم کے فرق کے بارے میں بات کرنے کی آزادی ہونی چاہیۓ لیکن یہ خیال رکھتے ہوے کہ بحث تصادم اور تکرار تک نہ پہنچنے پاۓ. اسی لئے ہمارے مطابق ‘تہذیب/ مہذبانہ انداز’ بہت ضروری ہے. وکیپیڈیا کے مترجمین کی طرح، کہ جدھرتہذیب ایک انتہائی ضروری لفظ ہے، ہمارے طالب علم مترجمین نے دوسری زبانوں میں اس کا برابر لفظ نکالنے کی بڑی جدوجہد کی ہے. آکسفورڈ کی انگریزی لغت سے مجھے اس کی تعریف کے یہ حصے پسند آۓ: ‘مہذبانہ بات چیت کے لئے مناسب عمل اور الفاظ’ اور ‘ایک سماجی صورت حال کے دوران ایک مناسب سطح کی تہذیب’.
‘متنفر باتیں اور تقاریر’ اور ‘ نا قابل تبدیل خصوصیات’
آزادئ اظہار راۓ پر زیادہ تر تحقیق اور کام اس پہلو پر ہے کہ ہمیں قانونی طور پر اپنے سے مختلف مردوں اور عورتوں کے بارے میں کیا کہنے یا نہ کہنے کی اجازت ہونی چاہیۓ. انگریزی میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ‘ہیٹ سپیچ’ یعنی ‘متنفر تقریر’ ہے. اس کی تشریح اس طرح کی جاتی ہے کہ کوئی بھی ایسی بات جو کہ ایک گروہ یا ایک انسان کی کسی ایسی بات یا خصوصیت کی توہین کرے جو کہ عام راۓ کے مطابق اس گروہ میں پائی جاتی ہے. بین الاقوامی معاہدہ براۓ شہری و سیاسی حقوق کی دفع ٢٠ کے تحت ،مذہبی، قومی یا نسلی امتیاز کی کوئی بھی ایسی بات جو کہ امتیازی سلوک، دشمنی یا تاشدّد کی طرف اکساۓ’ اس کو غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیۓ. اس بات پر کئی جلدیں وقف کی گئی ہیں کہ اس اصول کی وضاحت کس طرح کی جاۓ اور یہ کہ دفع ١٩ اور ٢٠ میں کس طرح مصلحت اور توازن برقرار رکھا جاۓ. مختلف ممالک اس چیز میں بہت زیادہ فرق رکھتے ہیں کہ وہ کیا بولنے کی اجازت دیتے ہیں اور کیا نہیں اور اس کی سطر قطعاً آمرانہ اور جمہوری ریاستوں کے درمیان محدود نہیں.
مغرب کی سب سے قدیم جمہوری ریاستوں کے درمیان بھی اس معاملے میں بڑی مختلف راۓ پائی جاتی ہے. یورپ اور انگریزی بولنے والی دنیا کے زیادہ تر ممالک (جیسے کینیڈا، آسٹڑیلیا وغیرہ) قانوناً اس پر کہ کیا بولا جا سکتا ہے اور کیا نہیں امریکہ سے زیادہ پابندی لگاتے ہیں. اس اصول کا موضوع اگلے تین اصولوں میں اٹھاۓ گئے سوالات سے کافی مشابہت رکھتا ہے: تاریخ، سائنس اور دوسرے علمی موضوعات پر بحث کی آزادی (اصول ٥ دیکھیۓ)، تشدّد کی طرف اکسانا (اصول ٦ دیکھیے) اور- ہمارے دور کے لئے انتہائی متنازع- مذہب (اصول ٧ دیکھیۓ). لیکن یہ ان باتوں، خاکوں اور تصویر پر براہ راست لاگو ہوتا ہے جو کہ دوسرے انسانوں پر محض ان کی شناخت کی بنا پر ان پر حملہ کرنے یا منفی خصوصیات کا تشخس کرے، نہ کہ ان کے عقائد یا خیالات پر، صرف اس لئے کہ ، مثال کے طور پر، ان کی جلد کا رنگ زیادہ سیاہ ہے یا پھر وہ عورتیں ہیں یا وہ کسی مخصوص خاندان یا قبیلے میں پیدہ ہوے ہیں.
امریکہ میں ان کو ‘ نا قابل تبدیل’ خصوصیات کہا جاتا ہے، لیکن آپ ان کو غور سے دیکھیں تو ان میں سے کچھ دوسروں سے زیادہ نا قابل تبدیل ہیں. اس میں ہمیشہ مذہب اور نسل کے درمیان تفریق کی جاتی ہے کیونکہ مذہب بدلہ جا سکتا ہے لیکن نسل نہیں. لیکن یہ تفریق کتنی واضح ہے؟ یہ بات درست ہے کہ آپ اپنی نسل نہیں بدل سکتے لیکن جس طرح پال گلروۓ اور دوسروں نے دلیل دی ہے کہ ‘نسل’ ایک سماجی پیداوار ہے. کئی دہائیوں تک وہی آدمی جو کہ (چاہے ہمیں اچھا لگے یا نہیں) امریکہ میں ‘کالا’ کہلاتا تھا وہ برازیل میں ‘سفید فام’ ہو سکتا تھا. تو کیا اصل میں ‘نسل’ واضح طور پر نا قابل تبدیل خصوصیات کی فرہست میں شامل ہوتی ہے اور مذہب تبدیل ہونے والوں میں؟ آپ کیا سوچتے ہیں کہ ‘نا قابل تبدیل خصوصیات’ کیا ہوتی ہیں؟
قانونی طور پر یا سماجی رسوم؟
یہ چوتھا اصول بھی باقیوں کی طرح یہ تجویز کرتا ہے کہ کم سے کم چیزیں اور باتیں قانونی طور پر محدود ہونی چاہیۓ اور ہمیں اپنے عقلمند پڑوسی، شہری اور انٹرنیٹ صارف ہونے کے ناطے ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنی آزادی پر از خود پابندی لگانی چاہیۓ.قانون کو زبردستی لاگو کرنے کے کئی نقصانات ہیں.آج کی مخلود دنیا میں اور انسانی شناخت جیسی پیچیدہ چیز کی روشنی میں یہ مھیّت کرنا بہت مشکل ہے کہ کس چیز پہ پابندی ہونی چاہیۓ اور کس پہ نہیں. مختلف ممالک کے قانون میں اس قسم کے غیر واضح الفاظ موجود ہیں جیسے کہ ‘اکسانا’ (برطانیہ)، ‘دھمکی آمیز الفاظ’ (ڈنمارک) یا ‘اشتعال انگیز’ (اسپین). اس قسم کے قانون کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ‘یہ صرف انتہائی شدید موقوں پر استعمال ہوتا ہے’. ریکارڈ یہ دکھاتا ہے کہ یہ قانون صرف چند دفعہ غیر معمولی صورت حال میں استعمال ہوے ہیں اور کچھ دفعہ ایسی صورت ہالوں میں جو کہ اتنی زیادہ شدید نہیں تھیں (اس میں ہماری کیس سٹڈی ادھر دیکھیں). اس قسم کے استعمال کو یا تو آپ چناؤ کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں یا پھر یہ ایک بے ترتیب عمل ہے. کیونکہ لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ یہ قانون کب استعمال ہوں گے، یہ قانونی طور پر غیر یقینی ایک تشفیش ناک صورت حال کو جنم دیتی ہے.
ایک دفعہ آپ اس راستے پر چل پڑیں تو آپ کو بار بار دوہرے معیار کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اگر نسل کے اوپر قوانین ہیں تو پھر مذہب پہ کیوں نہیں؟ اگر مذہب پہ ہیں تو جنسیت پہ کیوں نہیں؟ اگر یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے ہیں تو مسلمانوں کے لئے کیوں نہیں؟ اگر مسلمانوں کے لئے ہیں تو لیزبین کے لئے کیوں نہیں؟ اگر لیزبین کے لئے ہیں تو بوڑھے لوگوں کے لئے کیوں نہیں؟ اگر ریاست ان تمام اعتراضات کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے تو پھر’پیش رو انجام’ ہو گا- یعنی زیادہ سے زیادہ مضامین اور گروہ تنقید کے دائرے سے باہر ہو جائیں گے. ‘پیش رو انجام’ نا صرف اس لبرل کوشش کا جواب ہے کہ قانون کے آگے سب برابر ہوں بلکہ مختلف گروہوں کی مذاکرات کی طاقت کا بھی ثبوت ہے. اگر آپ اس منطق کی پیروی کریں تو جتنا زیادہ متنوع معاشرہ ہو گا اس میں اتنی ہی زیادہ پابندیاں ہوں گی.
آخرکار آپ ہندوستان کی تعزیرات کی دفع ١٥٣-ا میں دیے گئے جامع نظریہ تک پہنچتے ہیں جو کہ ہر اس انسان کو تین سال قید کی سزا دیتا ہے جو کہ ‘الفاظ سے، چاہے وہ زبانی یا تحریر کردہ ہوں، یا اشاروں سے یا ظاہری خاکوں سے یا کسی اور طریقے سے مذہب، نسل، جگہ یا پیدائش، جگہ رہائش، زبان، ذات یا قوم یا کسی اور چیز کو بنیاد بنا کر مختلف مذھب، نسلوں اور زبان بولنے والوں یا علاقائی گروہوں، ذاتوں یا قوموں میں نفرت، انتشار، یا بد نیتی کو فروغ دے یا فروغ دینے کی کوشش کرے…’ سادھے طور پر دیکھا جاۓ تو یہ ایک حتمی جدید کثرت ثقافت کی ہدایت لگتی ہے. اصل میں یہ سلطنت برطانیہ کے دنوں سے رائج ہے اور یہ تعزیرات تاریخ دان ٹامس بابنگٹن مکالے نے لکھا تھا. اس کا منطق حکومتی جبر کا تھا: کسی کو بھی کسی کے خلاف کچھ بھی کہنے پر جیل میں ڈال دینے کی قوت استعمال کر کے مقامی لوگوں پر قابو رکھا جاۓ.
لوگوں کو عام طور پر یہ چیزیں کہنے سے روکنے سے آپ ان کو یہ خیالات سوچنے اور محسوس کرنے سے نہیں روک سکتے. اس صورت حال میں یہ خیالات صرف دبا دیے جاتے ہیں جدھر یہ پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور آخر کار زیادہ زہریلی صورتوں میں ابھرتے ہیں.
برا منانا
اس قسم کے قانون کا یہ برا اثر ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کے برا منانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے. کیا ہم ایسے انسان بننا چاہتے ہیں جو کہ ہر وقت برا مناتے رہیں؟ (جنوبی افریقی مصنف جے ایم کویٹزی نے کہا ہے کہ ‘یہ ایک کمزور نظریہ کی نشانی ہے کہ جب اس کے رکھنے والے کا مقابلہ کیا جاۓ تو وہ برا منا لے’). کیا ہمیں اپنے بچوں کو اس طرح بڑا کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھیں؟ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قانون کو علامتی طور پہ ‘پیغام پہنچانے’ کے لئے استعمال کرنا چاہیۓ، کیا یہ بھیجنے کے لئے صحیح پیغام ہے؟ یا کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے یہ سمجھ کر بڑے ہوں کہ کسی بے بنیاد توہین کی بنا پر–چاہے وہ نسل پرست ہو، جنس پرست، قوم پرست یا عمر پرست– جو انسان نیچا ہو رہا ہے وہ توہین کرنے والا ہے نہ کہ جس کی توہین کی جا رہی ہے،
انگریزی کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ ‘اگرچہ پتھر اور ڈنڈے میری ہڈیاں توڑ سکتے ہیں لیکن الفاظ مجھے ٹھیس نہیں پہنچا سکتے’. ایک وضاحتی بیان کے طور پر یہ بالکل غلط ہے. الفاظ ہمیں بہت دکھ پہنچا سکتے ہیں. لیکن اگر اس کو وضاحت کی بجاۓ ایک نسخے کے طور پر لیا جاۓ تو ہمیں اس بات میں ایک مختلف منطق دکھائی دیتا ہے: کہ میں ایک ایسا انسان بننا چاہوں گا جس کو توہین آمیز الفاظ تکلیف نہیں پہنچا سکتے. ایک ایسی دنیا میں جدھر ہمیں روز مختلف قسم کے لوگوں سے قریبی طور پہ واسطہ پڑتا ہے، ہم سب کو اپنے اندر برداشت کا مادہ بڑھانے کی ضرورت ہے.
لیکن واضح طور پر یہ کہنا آسان ہے اگر آپ ایک امیر اور طاقتور انسان ہوں جو کہ ایک غالب اکثریت سے تعلق رکھتا ہو نہ کہ آپ ایک پسماندہ اقلیت کی مفلس عورت ہوں. ہمارے رضاکارانہ اقدار کو یہاں تک محدود نہیں کیا جا سکتا کہ ‘ہم سب کو اپنی برداشت بڑھانی پڑے گی’. اس میں طاقتور اور کمزور کے درمیان فرق کو بھی ذہن میں واضح رکھنا ہو گا.
ایک مضبوط مہذبانہ روایت کی جانب
اگر ہم نے آزادئ اظہار راۓ برقرار رکھی ہے تو ہمیں دوسرے کو برا منوانے کا حق بھی برقرار رکھنا ہو گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پر دوسرے کی توہین کرنا فرض ہے. ہمیں دوسرے یا جن لوگوں کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں ان کے انسانی وقار کو ٹھکراۓ بغیر ایک دوسرے سے کھل کر بات کرنے کے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے.
اس طرح کی مضبوط مہذبانہ روایت تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں اور ان میں سیاق و سباق کے مطابق کافی فرق ہو گا (یہ ایک اور وجہ ہے کہ یکساں توہین آمیز تقریر کا قانون انسانی بات چیت کی پیچیدگی پر پابندی عائد کرنے میں کیوں ناکام ہے). مثال کے طور پر زیادہ تر طنز و مزاح مہذبانہ گفتگو اور بات چیت کے معمولی اصول سے تجاوز کرتا ہے. اگر ہم صحیح طور پر دیکھیں تو دنیا کے آدھے سے زیادہ لطیفے جنسی یا نسلی طور پہ ناقابل برداشت توہین آمیز ہوتے ہیں. ایک ہلکی پھلکی سی مثال اگر دیکھی جاۓ تو امید جلیلی کہتے ہیں ‘میں دنیا کا واحد ایرانی مزاحیہ اداکار ہوں – اور یہ تعداد جرمنی سے تین گنا زیادہ ہے’. کبھی کبھی ایک یہودی لطیفے اور خلاف یہود لطیفے میں یہ ہی فرق ہوتا ہے کہ اسے کون بیان کر رہا ہے.
ہم بغیر سوچے سمجھے، روز کئی دفعہ اپنی مہذبانہ سوچ کو بدلتے ہیں. کچھ چیزیں جو آپ اپنے قریبی دوست کو کہتے ہیں وہ آپ کبھی بھی اپنی دادی اماں کی کھانے کی میز پر نہیں کہیں گے. کمیٹیاں، سکول، کلب، کارخانے، یونیورسٹیاں، دفاتر ہر جگہ رسمی یا غیر رسمی طرز لباس ہوتا ہے. یہ عام طور پر کچھ پابندیوں کے تحت ہوتا ہے، یا کم از کم کسی رسمی لباس پر زور دیتا ہے، ان کپڑوں کے برعکس جو ہم دوسری جگہوں پر پہنتے ہیں. زیادہ تر ویبسائٹ اور اشاعت کے اپنے کمیونٹی اور اداراتی معیار ہوتے ہیں.
آزادئ اظہار راۓ کشتی چلانے کے متوازی
فلسفی مایکل فوکلٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ ایپکیورین مفکر زینو ،جو سیڈون سے تعلق رکھتا تھا، نے یہ خیال پیش کیا کہ آزادئ اظہار راۓ کو ایک ہنر، یا ‘تکنی’، کی طرح سکھانا چاہیۓ جیسے طب یا ملاحی. مجھے یہ نہیں معلوم کہ اس میں کتنا زینو نے خود کہا اور کتنا فوکلٹ نے لیکن میرے مطابق یہ ہمارے دور کے لئے ایک ضروری خیال ہے. اس پر ہجوم دنیا میں ہمیں الفاظ کو ملاحی کی طرح استعمال کرنا سیکھنا ہو گا، بالکل اس طرح جیسے قدیم زمانے کے ملاحوں نے بحیرہ ایگن کو پار کرنا سیکھا تھا. لیکن ہم اس وقت تک نہیں سیکھ سکتے جب تک ریاست ہمیں اپنی کشتی کو باہر لے جانے کی اجازت نہ دے.
وکیپیڈیا ایک ایسی کمیونٹی کی اچھی مثال ہے جس نے معلومات کے اشتراک کے اپنے مہذبانہ اصول خود ہی بناۓ ہیں. ہم نے بھی اس ویبسائٹ کے کمیونٹی معیار کچھ اسی طرح رکھے ہیں. اگر ہم میں سے اکثریت اس پہ اتفاق کرے، ایک کھلی اور مہذبانہ بحث میں، آزادئ اظہار راۓ کی اس مخصوص کمیونٹی اور سیاق و سباق میں خود ساختہ حدود کیا ہیں، پھر یہ آزادئ اظہار راۓ اور تہذیب دونوں کی کامیابی ہو گی.
آپ کیا سوچتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ اور حساس موضوع ہے. ہمارے کچھ مشیر میری پیش کردہ دلیل سے متفق نہیں. مثلاً جیریمی والڈرن یہ سوچتے ہیں کہ یورپ اور کینیڈا کی طرز پہ قانون سازی کی زیادہ اشد ضرورت ہے. ان برعکس خیالات کا ضرور مطالعہ کیجیے. اور پھر اپنے خیالات کا اظہار ادھر کیجیے.
reply report Report comment
All taboos are different and thus be treated differently.
One the one hand, taboos exist in a way that hinders efficient decision making. For example, criticizing anyone who is homosexual, of a certain ethnicity, of a certain religion etc. for things completely unrelated to the aforementioned traits, can cause a disproportionate amount of controversy, so as to render any discussion impossible. An example that comes to mind is regarding the Israeili community in the US. There was a book called "The Israel Lobby” written by Professor Walt and Professor Mearsheimer. While the book was merely attempting to point out that US policy may be influenced too much by AIPAC, it was criticized by certain members of the pro-Israel community as anti-semitic. Anything critical of the Israel community being dubbed as anti-semitism discourages healthy debate. Same goes with racism and homophobia.
On the other hand, I believe some taboos should remain in place. I used to be the most carefree liberal person I knew in the past, a staunch practitioner of subjectivism. One day I met someone who pronounced publicly his support for zoophilia, and said "anyone wishing to debate me on this issue is welcome, for I will crush your arguments”. Even with my laisser-faire attitude at the time, I sensed a great discomfort. I heard about zoophilia for the first time because of him. (I wish I can un-learn this.) Truth is, debating about zoophilia on a wider scale, will only serve to educate existing perverts in society to pave the way for actual practice. A debate won’t change them. Logic works both ways, so there many never be an end to the debate at all. And those who are against it, will be against it anyways, without discussion. Same goes with paedophilia and incest.
개인적으로는 특정 사회적 금기가 존속했으면 좋겠으나, 민주주의 원칙과 양립하지 않는다는 문제가 있죠. 민주주의가 무엇을 위한 것인지 재고를 필요가 있다고 봅니다.
reply report Report comment
You state: "Freedom of expression helps us get closer to the truth.” It seems to me that you are here applying an observer-independent view of reality. Please correct me if I’m wrong. – I ask: Who’s truth? Where do you have that truth? From an observer-dependent view of reality, which I apply, your principle doesn’t make much sense. Here truth or ‘reality = community’ (in Heinz von Foerster’s very simple words).
reply report Report comment
Je suis également gênée par l’usage du mot ‘vérité’. Quelle est la fonction de l’article défini, s’agit-il vraiment de ‘la vérité’? Peut-il y avoir plusieurs vérités? Serait-il question d’une vérité subjective plus que de ‘la vérité’? Est-il préférable de laisser ce terme défini par son seul article ou l’idée qui se cache derrière bénéficierait-elle d’un adjectif (ou deux) pour la rendre plus claire? Et en fin de compte, qu’est-ce que ça veut dire ‘la vérité’?
I also feel uneasy with the use of the word ‘truth’. Why is there a definite article here, are we really talking about the truth? Could we conceive many truths? Can this truth be a subjective one more than ‘the truth’? Would it be better to leave this term with its article as sole definition or could the idea behind it benefit from an adjective (or two)? Actually, does ‘the truth’ mean anything?
Ich betrachte auch das Wort ‘Wahrheit’ mit Unbehagen. Warum gibt es ein bestimmter Artikel hier, sprechen wir ja von ‘der Wahrheit’? Können nicht auch Wahrheiten bestehen? Kann diese Wahrheit subjektiv mehr als ‘die Wahrheit’ sein? Ist es besser das Wort allein mit seinem Artikel zu belassen oder wurde die Ansicht, die hinter ihm steht, mit einem Adjektiven (oder zwei) mehr verstehbar? Im Grunde genommen, bedeutet ‘die Wahrheit’ etwas wirklich?
report Report comment
The typical modern approach that "All truths are subjective” may only be valid on a narrow sense, in a sense that we are trapped in our own perceptions. But to take this argument to its extreme, one could say, "I brutally murder children and that is how I achieve truth in life”. One can say then, that "human rights” is the absolute norm. But that would require the presence of an absolute truth, which would be self-contradictory.
reply report Report comment
"Even false challenges can contain a sliver of truth. The mind’s muscles, like the body’s, must be stretched to stay strong.”
So why all the use of the intolerant word ‘denier’ esp over climate change? True freedom of speech involves standing up for the right of those who you disagree (or even hate most )with most to say (and be heard) what they think.
reply report Report comment
There are some things that shouldn’t be discussed ever, like pedophila or terrorist-promoting materials.
reply report Report comment
Can you elaborate? How can we tackle paedophilia if we never discuss it? I also don’t think it’s a clear-cut case with materials promoting terrorism. Who decides what constitutes a terrorist act? There is no legally binding definition in international law. Plus what if I set up a "terrorist” website but no-one reads it? I’d be interested to hear what you think.
reply report Report comment
Auch mir erscheint dieses Prinzip als zu schön, um die Probleme zu lösen. Natürlich läßt sich niemand durch ein Verbot, durch ein Tabu davon überzeugen, dass ein massenmord, eine systematische Vernichtung von Menschen stattgefunden hat. Die Leugnung der Ermordung von Milllionen unschuldiger Menschen in Deutschland und durch Deutsche isgt aber nicht Ausdruck einer bestimmten Meinung sondern es dient der Provokation und Verächtlichmachung der Ermordeten und der Überlebenden dieses Massakers.
Und ein zweites Problem: die Freiheit der Verbreitung von Wissen muss möglicherweise Grenzen haben beim Urheberrecht.
reply report Report comment
The problem is not only "allowing” the discussion and dissemination of knowledge, but also making sure that it happens.
One the biggest issues related is determening the definitions of such words as "genocide” and its use. These words carry very large negative conotations, and it is no secret that wording used in describing an event can easily sway the public’s opinon. Keeping this in mind, I think it was a mistake to mention only authoritation, totalitatian and non-western countries (as Turkey). True, the United States government may not persecute it’s journalists for claiming that what happened in East Timore from 1974-1999 was a systematic "genocide” of its citizens by Indonesian army, but that is because barely any do so, reason being that Indonesia is a close ally of the USA. Similar events happened when the Kurds were persecuted and killed by Iraqis and Turks. The amount of times the word "genocide” was used to describe the actions of Iraqi army was by a very significant margin larger than the amount to describe the Turkish military army actions, despite the fact that their (Turks) actions were by far way worse (in terms of number of casualties, displaced people etc.). And once again it was the relations of the US with these countries that determined the treatement of the events in the media.
Therefore, I think that this priciple, despite me agrreing with it, is too idealistic for the world we live in.