04صحافت

ہمیں بغیر پابندی کے، مختلف النوع اور با اعتمادمیڈیا چا ہیےتا کہ ہم باخبر فیصلے کر سکیں اور سیاسی زندگی میں بھرپور حصہ لے سکیں۔

آزادی اظہار راۓ اور اچھی حکومت 

چوتھی صدی قبل مسیح کے چینی ‘ریاستوں کے تذکرے’ میں ڈیوک زھاؤ  نے زھاؤ کے بادشاہ لی کو کہا کہ ‘لوگوں کی زبان روکنا کسی دریا کو روکنے سے بدتر ہے’. اور کنفوشس نے انیلیکٹس میں ہدایت کی کہ  ‘ اس سے سچ بولو چاہے اسے برا ہی کیوں نہ لگے’ [١٤:٢٢].

پرانے زمانے کی خود مختار روسی جمہوریہ نوووگروڈ کی ایک حکمران کونسل ہوا کرتی تھی جس کو ویچی کے نام سے جانا جاتا تھا. یہ لفظ ‘بولنے’ کے سلاوک لفظ کی جڑ سے نکلا ہے جس طرح ‘پارلیمنٹ’ کا لفظ فرانسیسی زبان کے لفظ ‘پارلر’ یعنی ‘بولنے’ سے نکلا ہے. ہمیں کئی ملکوں اور تہذیبوں کی تاریخ میں اس خیال کی مثالیں ملتی ہیں کہ اچھی حکومت کے لئے بےخوف اور آزاد راۓ ضروری ہے.

تاہم ٢٥٠٠ سال پہلے یونان کی چھوٹی شہری ریاست ایتھنز کے باشندوں نے آزادئ اظہار راۓ کو اس انقلابی خیال سے جا ملایا کہ لوگوں کو اپنے اوپر خود حکمرانی کرنی چاہیۓ. انہوں نے اس کو ‘ڈیماکرسی’ کا نام دیا جس کا مطلب ‘لوگوں کی حکومت’ ہے (ڈیماس= لوگ + کراتوس= حکومت). انہوں نے اس نۓ طرز حکومت پر اصل میں ایک جگہ اجتماع کر کے عمل کیا. ایک شخص نے پوچھا ‘اجتماع سے کون خطاب کرنا چاہتا ہے؟” پھر  کوئی بھی آزاد آدمی کھڑا ہو کر اپنی بات کرتا اور عوامی پالیسی کا کوئی اقدام تجویز کر دیتا. عام طور پر شہر کے تیس ہزار آزاد مردوں میں سے ٨٠٠٠ تک اسمبلی میں شرکت کرتے تھے.

جی ہاں، اس میں شرکت صرف آزاد مردوں کی ہوتی تھی. عورتوں اور غلام مردوں کو دو ہزار سال اور انتظار کرنا پڑا. اس کے باوجود ایتھنز کے باشندے دو  انتہائی اہم خیالات کے بانی تھے. انہوں نے انھیں ‘پرھیسیا’ اور ‘اسیگوریا’ کہا. پرھیسیا سے- جو کہ پین- ریسیا (‘سب کچھ بول دینے کی صلاحیت’) سے نکلا ہے- ان کا مطلب تھا کہ لوگوں کو آزاد اور بےخوف ہونا چاہیۓ تاکہ وہ پرزور طریقے سے وہ بیان کریں جس کو وہ سچ سمجھتے ہوں. اسیگوریا کا مطلب تھا کہ سب لوگوں کو بولنے اور سننے جاننے کا برابر حق ہونا چاہیۓ. یہ جڑواں خیالات، جن کی توسیع اب تمام عورتوں اور مردوں تک ہو گئی ہے، آج کے دور میں بھی آزادئ اظہار راۓ کے لئے بنیادی اور کلیدی ہیں.

میڈیا کیا ہے؟

کچھ جگہوں پر، عام لوگ آزادی سے ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں، چاہے یہ محلے، گاؤں، سکول یا یونیورسیٹی کی اسمبلیوں میں ہو. لیکن ہماری زیادہ تر بستیاں اور ریاستیں اس حساب سے بہت زیادہ بڑی ہیں کہ تمام لوگ جمع ہو کر سب لوگوں کی باتیں سنیں اور پھر ووٹ سے فیصلہ کریں. اسی لئے اب ہم میڈیا پر انحصار کرتے ہیں- یعنی کہ مواصلات ہموار کرنے کے چینل.

پندرھویں صدی میں جوہانس گوٹنبرگ کے اشاعت کی پریس ایجاد کرنے کے پانچ صدیوں سے زائد مدت کے بعد بھی اس کا عام طور پر مطلب کاغذ پر چھپے الفاظ اور تصاویر ہی ہے: یعنی کہ کتابیں، بروڈشیٹ، رسالے اور اخبارات. ١٧٩١ کی امریکی دستور کی پہلی ترمیم گوٹنبرگ کی ایجاد کو خصوصی اہمیت دیتی ہے. اس میں لکھا ہے کہ ‘کانگریس کوئی ایسا قانون نہیں بناےٴ گی …جو کہ آزادئ اظہار راۓ یا پریس کی آزادی کے خلاف ہو’. پچھلی صدی کے دوران ریڈیو اور ٹیلیویژن کی پہنچ زیادہ لوگوں تک ہو گئی ہے. وہ مرد اور عورت جن کا کام ان میڈیا کے ذریعے لکھنا اور براڈکاسٹ کرنا تھا ان کو جرنلسٹ یا صحافی کہا جاتا تھا.

آج کے دور میں، جس کے پاس بھی انٹرنیٹ یا موبائل فون تک رسائی ہو وہ الفاظ، خیالات اور تصاویر کو پھیلا سکتا ہے. اس معنی میں اب ہم سب ہی صحافی ہیں. گزشتہ چند سالوں میں، چین اور ترکی میں زلزلے کی خبر اکثر نا معلوم بلاگروں اور سوشل نیٹوورک استعمال کرنے والوں نے پھیلائی. جارج پولک انعام، جو کہ صحافت کے سب سے اعلیٰ درجے کے انعامات میں سے ایک ہے، ایک نا معلوم انسان کو نوازا گیا جس نے احتجاج کرنے والے ایرانی ندا اغان سلطان کی وفات کی چالیس سیکنڈ لمبی ویڈیو  بنائی تھی. یہ اس نا معلوم  شہری صحافی کو خراج تحسین پیش کرنے کا طریقہ تھا.

ہم میں سے بہت سے لوگ اب اس میڈیا سے پہلے سے بھی زیادہ حاصل کر سکتے ہیں. تیس سال پہلے، ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ تر لوگ اپنی خبروں (اور راۓ) کا وصول ایک روزنامہ اخبار اور کچھ ریڈیو اور ٹیلیویژن چینلوں سے کرتے تھے. اب کوئی بھی ایک عام، بلا سینسر انٹرنیٹ کے ساتھ ایک ماؤس کے کلک پر ہزاروں ذرائع، جرنل اور چینل دیکھ سکتا ہے. اس کی بہترین مثالوں میں لائیو سٹیشن (انگریزی اور عربی)، کرنٹ ٹی وی(انگریزی)، اور لائیو جرنلاور ٹی وی ٹیوب (بہت سی زبانوں میں) ہیں.

آپ کا میڈیا کتنا متنوع ہے؟

میڈیا کی کثرت، اور ان کے ذریعے وہ انسانی آوازیں جو آپ سن سکتے ہیں، ایک وسیع تر منظر میں آزاد اظہار راۓ کو مثبت اور سیاسی انداز میں استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے. لیکن ہم ابھی بھی اس کی ممکنہ طاقت کو پہچاننے اور استعمال کرنے سے بہت دور ہیں. عملاً، اس دنیا میں زیادہ تر لوگ ابھی بھی میڈیا کی محدود اقسام سے باخبر اور متاثر ہوتے ہیں، اور ہر ملک میں چند ٹی وی چینل ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. نجی اور اجتماعی قوتیں ان چیزوں کو صورت دیتی اور محدود کرتی ہیں جو ہم تک پہنچتی ہیں: چاہے وہ ریاست ہو، مواصلات کی ایجنسیاں ہوں، ایران کے آیت اللہ ہوں، اٹلی کے سلویو برلسکونی ہوں یا برطانیہ کے روپرٹ مرڈوک ہوں.

اور یہ ان کئی جگہوں سے پہلے ہیں جدھر صحافیوں کو سنسر، دھمکایا، جیلبند یا پھر گولی مار دی جاتی ہے صرف اس لئے کہ وہ (قدیم چینی کہاوت کے مطابق) ‘حقائق سے سچائی ڈھونڈنے’ پر اور پھر طاقت کو سچائی سے آگاہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں.

یہ یورپی محققین کا تیار کردہ ایک کارامد آلہ ہے جس کے ذریعے آپ یہ تعیّن کر سکتے ہیں کہ آپ کے ملک کا میڈیا کس حد تک آزاد اور متنوع ہے. ان محققین نے ‘میڈیا میں کثریت’ (ٹیکنیکل اصطلاح: ‘میڈیا پلورلزم’) کے چھے پہلو شناخت کئے ہیں. مثلاً کیا ملکیت اور کنٹرول میں کثریت ہے؟ یا کہ ملک کے ٹی وی، صحافت اور انٹرنیٹ کا بھاری حصہ ریاست یا چند میڈیا سرمایہ داروں، کارپوریشنوں کے ہاتھ میں ہے؟ مثلاً میکسیکو کے ملک میں قومی ٹیلیویژن کی مارکیٹ پر صرف دو کمپنیوں کا غلبہ ہے: ٹیلی ویزا اور ازٹکا. کیا آپ کے ملک کی زیادہ تر لسانی، مذہبی اور نسلی گروہوں کی نمائندگی میڈیا پر مناسب توازن میں ہو رہی ہے؟ (اس کا جواب تقریباً ہر جگہ پر منفی ہے). اور اگر سوچا جاۓ تو صرف آپ کے اپنے ہی ملک میں کیوں؟ اور ہماری باہمی طور پر منسلک باقی دنیا میں خبروں اور خیالات کا کیا حال ہے؟

اور پھر، اہم طور پر، سیاسی میدان میں مختلف خیالات کا معاملہ ہے. کیا ایک پارٹی، یا ہم مقصد گروہ کو میڈیا پر بہت زیادہ غلبہ حاصل ہے؟ کیا ہر ٹی وی سٹیشن یا اخبار کسی سمت میں تعصب زدہ ہے؟ کیا جب تک سارے اہم سیاسی خیالات تک بڑے پیمانے پر ٹی وی اور ریڈیو چینل، اخبارات اور ویبسائٹوں کے ذریعے رسائی ہے یہ اہمیت رکھتا ہے؟ امریکہ میں روپرٹ مرڈوک کے چینل فاکس نیوز کا مقولہ ہے ‘منصفانہ اور متوازن’ لیکن عملاً فاکس نیوز اس سے بہت دور ہے. کیا جب تک مخالف راۓ عامہ کے نیوز چینل اتنے ہی غیر منصفانہ اور غیر متوازن ہیں، یہ ٹھیک ہے؟

یا پھر کیا ہمیں بکل ‘منصفانہ’ راۓ کی طرف جدوجہد کرنی چاہیۓ؟ اس کا مطلب سائنسی مقصدیت نہیں کیوں کہ وہ انسانی معاملات میں حاصل کرنا ناممکن ہے، بلکہ اس بات کی طرف ایک سنجیدہ جستجو کہ (ا) حقائق کو تبصرے اور خبر کو اظہار راۓ سے الگ کیا جاۓ اور (ب) ایک ہی جگہ پر – چاہے وہ ٹی وی ہو، جرنل یا ویبسائٹ- معاشرے میں موجود کسی بھی موضوع پر تمام مختلف راۓ کی منصفانہ نمائندگی کی جاۓ.

ضوابط اور از خود ضوابط

ان چیزوں کو مستحکم آزادانہ جمہوری ریاستیں بھی مختلف طریقوں سے سنبھالتی ہیں. یہ ان چیزوں میں بھی فرق رکھتی ہیں کہ ریاست، عدالتیں اور عوامی ادارے کن چیزوں پر اصول رائج کرتے ہیں، اور وہ کون سی چیزیں ہیں جو مارکیٹ اور معاشرے پر چھوڑ دی جاتی ہیں. مثلاً، برطانیہ نے ابھی تک پریس کو از خود ضوابط کی اجازت دے رکھی ہے  ، لیکن ٹی وی اور ریڈیو کے لئے ایک اتھارٹی ‘آفکام‘ کے ذریعےلازمی پبلک ضوابط ہیں. وہ شخص جس نے کئی سالوں تک برطانوی نشریات کے مواد کی قریبی جانچ پڑتال کی ہے اس نے کہا ‘ جب بھی میں نے امریکہ کا دورہ کیا، مجھے یہ احساس ہوا کہ امریکہ میں آفکام کا برابر ادارہ- فیڈرل مواصلاتی بورڈ- اگر براڈکاسٹروں پر متوازن راۓ کی پابندی لگاۓ تو اس کو اپنے خلاف آزادئ اظہار راۓ کے خلاف کام کرنے کے الزام میں عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑے. وہ چیز جو برطانوی قانون میں موجود ہے وہ امریکہ میں غیر قانونی ٹھہرائی جاتی ہے.

ہندوستان میں یہ ایک گرم بحث ہے کہ کیا از خود ضوابط ملک کی بے لگام اور نہایت آزاد میڈیا کے لئے کافی ہیں. ملک کی پریس کونسل کے صدر ہندوستانی میڈیا کو ‘عوام مخالف‘ قرار دیتے ہیں. یہاں تک کہ ‘دی ہندو’ کے مدیر اعلیٰ، این رام، کہتے ہیں، ‘ہمیں کسی قسم کی انضباتی طاقت کی ضرورت ہے. صرف از خود ضوابط کام نہیں کرتے’.

مختلف ممالک مختلف طریقوں سے اقدام اٹھاتے ہیں. اور یہ اقدام کس طرح اٹھاۓ جاتے ہیں، وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے. اس چیز کا کوئی عالمگیر ‘صحیح’ طریقہ نہیں ہے. جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ نتائج ہیں: ایک کھلا، آزاد اور متنوع میڈیا. اسی لئےہم لوگوں، یعنی عوام، پہ یہ زمداری ہے کہ ہم مسلسل جانچ پڑتال کرتے رہیں اور میڈیا میں آزادی، مختلف راۓ کے فروغ، حقائق پر زور اور مختلف گروہوں کی مناسب نمائندگی کے لئے اصرار کرتے رہیں.

اب ہم سب صحافی ہیں

آج کل کے دور میں ہمیں اپنے آپ کو صرف آزاد متنوع میڈیا کا مطالبہ کرنے تک محدود رکھنے کی ضرورت نہیں. اب ہم یہ خود بھی کر سکتے ہیں. اسی لئے ہمارے اصولوں کے مسودے میں یہ لکھا ہے کہ ‘ہمیں ضرورت ہے اور ہم بناتے ہیں…’ آپ کے پاس وہ رسالہ نہیں جو آپ چاہتے ہیں؟ خود اپنا رسالہ شروع کر لیجیے. جی ہاں، اس میں ایک کثیر مقدار میں انٹرنیٹ سے وابسطہ یوٹوپیا شامل ہے. زیادہ تر لوگ جو کہ بلاگ، ٹویٹ، یا انٹرنیٹ اور اپنے موبائل فون کے ذریعے کسی اور طرح ‘بولتے’ ہیں وہ ‘بیبل کے مینار’ کے ہونے میں ایک تنہا آواز بن کر رہ جاتے ہیں. یہ ایک بڑی مقدار جو کہ صرف تھوڑے لوگوں تک پہنچتی ہے. لیکن دوسرے کونے میں، چند لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ بہت سے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں.

لیکن ایسی کوششوں کی بھی کئی مثالیں ہیں جن کے کافی اچھے نتائج نکلے، اور جنہوں نے بہت سوں تک رسائی حاصل کی، کچھ اس انداز میں جو کہ انٹرنیٹ کے دور سے پہلے ممکن نہیں تھا. ادھر ہم صرف کچھ کو دیکھیں گے. ایک ہے جنوبی کوریا کی حیران کن ‘اوہ مائی نیوز‘ جو کہ تقریباً مکمل طور پر شہری صحافی لکھتے ہیں. پھر ‘ہم سب خالد سعید ہیں‘ کا فیس بک کا صفحہ ہے، جو کہ وائل غونم نے بنایا، اور جس نے مصر میں وہ احتجاج شروع کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جنہوں نے ہوسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا. اور پھر امریکہ میں ڈرج رپورٹ ، چینی بلاگر ہان ہان اور الیکسی نوالنی جیسے روسی بلاگر جو کہ اعلیٰ  مقامات میں کرپشن پر سے پردہ اٹھا رہے ہیں.

براۓ مہربانی اگر آپ کو کوئی اچھی مثالیں نظر آئیں تو انھیں یہاں شامل کیجیے. ساتھ میں ‘ہم بناتے ہیں’ لسٹ پر تھوڑی سی تفصیل بھی لکھیے کہ ان کا تعلق ادھر کیوں ہے.

فلٹر ببل اور اجتماعی سوچ کے خلاف

ایک اور طریقہ ہے جس کے ذریعے ہمیں ایک آزاد اور متنوع میڈیا کا خیال رکھ سکتے ہیں. اب تک اس بات کا کافی ثبوت سامنے آیا ہے کہ انٹرنیٹ اصلیت کے غلط اور  مسخ زاویوں کو فروغ دے سکتا ہے. انٹرنیٹ پر، ایک تھوڑا غیر متوازن ذہنیت کا شخص ٩٣٧ اور لوگوں سے بات کر سکتا ہے جو کہ اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ چے گوارا  ابھی بھی زندہ ہے یا کہ ایدام پنیر کینسر کی ذمہ دار ہے. یہ لوگ اپنے آپ کو اس میں قید کر لیتے ہیں جسے کیس سنسٹین نے ‘معلومات کا پنجرہ’ کہا ہے، ادھر یہ مسلسل ایک دوسرے کے غلط اور کبھی زہریلے زاویے نظر کواجتماعی سوچ کے نیچے جانے والے رجحان میں شے دیتے ہیں.

کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ رجحان، کمپنیوں کی اس خواہش سے کہ وہ اپنے گاہک کو ان کی منفرادیت پہ مبنی خدمات اور ان کو اس منفرادیت پر مبنی مشتہیروں کو پیش کیا جاۓ، سرچ انجنوں، ویب پیجوں اور موبائل ایپس کی بڑھتی ہوئی خود اصطلاحات اور منفرادیت سے زیادہ شے پکڑے گا. جب ہم سب لوگ اپنے اپنے فلٹرببل (بلبلے) میں زندگی گزاریں گے،یعنی  ہماری ‘روزمرّہ کی میں میں’، تو پھر کوئی مشترکہ عوامی جگہ نہیں ہو گی. اور اس خیال سے کہیں  دور کہ سب ایک جگہ، ایک شاندار عالمگیر اجتماع میں خیالات اور راۓ کا تبادلہ کریں، ہم سب اپنے اپنے منفرد، نقل پذیر پنجروں میں بیٹھے ہوں گے جدھر ہم صرف اپنے ہم خیال لوگوں کی باتیں سن رہے ہوں گے.

یہ ایک خطرہ ہے. لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں. ہم ‘انٹرنیٹ’ یا ‘میڈیا’ نامی  ایک ناقابلہ مقابلہ قوت کے سامنے کھڑے جامد ذرّات نہیں ہیں. ہم اپنے آپکو اور اپنے بچوں کو میڈیا اور انٹرنیٹ سے متعلق خواندہ کر سکتے ہیں تاکہ ہم ان آثار سے آگاہ ہوں اور ہمیں پتہ ہو کہ ان کا سامنا کیسے کرتے ہیں. ہم آنلائن شایع کرنے والوں، انٹرنیٹ پر معلومات جمع کرنے والوں اور دانشمندانہ مہتمم ویب سائیٹ کو فروغ دے سکتے ہیں، جو وسیع پیمانے پر متفرقہ خیالات پیش کر کہ ان آثار کا مقابلہ کرتے ہیں. ہم فیکٹچک جیسے وسائل کو فروغ دے سکتے ہیں جو حقائق کی جانچ پڑتال کرتے ہیں. ہم وکیپیڈیا کو اب سے بہتر بنانے کے لئے کام کر سکتے ہیں.

ممجموعی طور پر گوٹنبرگ کے بعد کی دنیا ہمیں ایک آزاد، خود مختار اور متنوع میڈیا بنانے کا ایک بے مثال موقع دیتی ہے.


تبصرے (16)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. Dick,

    You claim that "it is not … permitted to criticise Muslim immigration and Islam”. You "demand that anyone who wants to say that [Islam is incompatible with Western democracy] be able to do so, and feel no compulsion to be silent”. You "think people should be entitled to say what they believe about Islam”. I don’t understand what you mean.

    Who is stopping you from speaking your mind? Your views are right here, out in the open.

    Views very much like yours are all over the mainstream media. They are also being articulated by influential and widely-read bloggers. Just look here [http://bit.ly/VthfKR], here [http://bit.ly/18ocQxU], here[http://bit.ly/18m1J8u], here[http://bit.ly/10UkffD], here[http://bit.ly/124TpZH], here[http://bit.ly/16dH6f1], or here[http://dailym.ai/132KhBn] – all circulating widely just in the last few days.

    How can you say that people are prevented from reading and writing such things when they and you are saying and writing them every day? Do you feel that what is being published does not go far enough? If that’s the case, look at the comment threads (if you can read German, you will particularly like this [http://bit.ly/NQftA5]), or Twitter, or Reddit, or Youtube. Legions of users post violently anti-Muslim statements there, which get likes and upvotes. Sometimes one or two people are arrested and later released without consequences if they are deemed to incite hatred or violence, for which they have to go much further than you do in your post; the cases your link referred to involved direct threats. Why should those be legal?

    Views similar to yours are also represented by politicians in the UK [http://bit.ly/1aizioB], the Netherlands [http://bit.ly/10HcmLs], Germany [http://bit.ly/16yAkzd], France [http://bit.ly/112jXn0], Austria [http://bit.ly/188rzwM] & Switzerland [http://bit.ly/16oRl07] & Italy [http://on.ft.com/13YvwRh] (where these parties were or are in government), Denmark [http://bit.ly/10zF4kN], the US [http://bit.ly/19lJcrS] and, I believe, your own country, Finland.

    Many political parties cater to the "I’m not racist but…” and "We can’t even say/do what we want anymore” crowds; they have plenty of politicians who warn that "sharia law” will be imposed on their countries if they do not protect western liberal democracy against ‘Islam’, including by deporting fellow citizens they disagree with. And gain, if the likes of Farage and Le Pen do not go far enough for your taste, there are even more radical parties in most of these countries, who in some cases receive state funding and in all cases enjoy the same police protection as everyone else when they want to voice their opinions.

    You seem to think your views are being censored by the police, political correctness and/or a liberal bias in the news media. I just don’t see any evidence that that’s the case. There is absolutely no shortage of anti-Muslim sentiment in our public discourse. On the contrary, people espousing such sentiments have been allowed to inject their poison into the veins of most western body politics, clouding the judgement of policy-makers and an often ill-informed public, so that bearded men and veiled women and conservative Muslims are now widely perceived as ‘Islamists’, ‘radicals’ and/or ‘oppressed women’, and many in the west have been convinced that ‘sharia law’ is the devil incarnate, and ‘jihad’ some global plot hatched in the 7th century to kill all infidels. (Evidence here [http://bit.ly/ZdZQpa] and here [http://bit.ly/ZsVNI6].)

    So why do you say that people like you are being silenced when you clearly have a platform in the media, on the internet, on the street and in politics? It must be because, beyond the crowd in your own echo-chamber, you have no audience. Despite everything, not many people agree with views as extreme as yours, even though more and more agree with a diluted version of your views because of the platform given to anti-Muslim rhetoric in the media and online. 

    What’s more, most people probably dislike you rather instinctively. Starting a post with I’m-not-racist-but doesn’t help; nor does calling 2 billion people "naive”, or 12 million fellow citizens "enemies in our midst”. Maybe a bit of civility would do the trick, Dick? You may think you are being censored, but in reality you are just being ostracised by the majority who disagree with your weak arguments and/or your vicious rhetoric.

    All your claims rest on the assumption that you can extrapolate from the ‘Islam’ of criminals like Michael Adebolajo and Anjem Choudary to the faith(s) of billions of people living all over the world and throughout history. You assume that what hate preachers say and governments do under the banner of religion is the one and only interpretation of a kaleidoscopic and fluent faith and centuries of practice, law and scripture. Yet you only apply this twisted reasoning to Islam.

    If you applied your logic to Christianity, you would have to conclude that ‘Christians’ (i.e. everyone from 21st-century Quakers to 12th-century crusaders and Jesus himself) are and always were like Anders Breivik and Terry Jones; that they are and were and will always be evil because some (democratic!) majority-Christian countries have barbarous criminal justice systems (including the death penalty, extrajudicial assassinations and torture); that Christianity is inherently racist and homophobic and misogynistic because it was and is used by many of its followers to justify slavery and resist movements for equality to this day; and that many Christians want to remove the liberal democracy that is incompatible with their faith, and replace it with Biblical law.

    Those who really care about their faith, in my personal experience, care about all of it, especially the bits that ask them to do what they don’t want to do. Those who abuse religion to justify their crimes always seem to care about nothing but "an eye for an eye” and the randomly picked and decontextualised quotes that give them an excuse for what they want to do for reasons unrelated to religion. So what’s the point of lumping them all together and condemning the many for the actions of the few? Condemning all members of an arbitrarily and loosely defined group for the actions of some of its ‘members’ is either nonsensical or bigotted. But if you are going to engage in such generalisations, you will have to at least hold everyone to the same absurd standard, or people will put labels on you that you do not seem to want to carry. You can’t insist on your right to call something you think is a spade a spade but deny others the right to do the same.

  2. I agree with ‘we speak openly about all kinds of human difference’, but the problem comes with defining ‘with civility’, because that is the point where certain groups will want to take offence at certain inconvenient truths, for instance that Islam is not a religion of peace and brotherly love.

  3. I am against racism, and I have nothing against any religion other than Islam. I think people should be entitled to say what they believe about Islam and the very real actions caused by Islam. Many people have had enough of the politically correct discourse that Islam is a religion of peace, etc etc, but are afraid to say so because they would immediately be labelled Islamophobes. Due to our tolerance, the non-Muslim inhabitants of Western countries are allowing ourselves to be steamrollered by Muslims and their increasingly intrusive demands – sharia law, changes in our foreign policy, etc. It seems to me that they are enemies in our midst and not loyal citizens. Islam is simply incompatible with Western democracy, and I demand that anyone who wants to say that be able to do so, and feel no compulsion to be silent about this most pressing of issues.

  4. Some discussions about human difference cannot be civilly discussed; for example, racism should never be allowed.

  5. My opinion is that such kind of speech and expression of thoughts, jokes, etc. connected with immutable characteristics of people, shouldn’t be limited by law and society: it should be up to every person, what should he/she say and what shouldn’t. Up to his/her mind and conscience. Until it harms person.

  6. Freie Meinungsäußerung ist wichtig, solange der Redner dabei nicht die Recht e anderer Menschen beschneidet oder andere Lebewesen diskriminiert.

  7. A very interesting and controversial article posted by Janet Haney – Kenen Malik on multiculturalism. He suggests that we can either pledge equality of cultures or equality of people, but not both. Thanks Janet 🙂 !
    http://www.kenanmalik.com/lectures/multiculturalism_if.html

  8. I disagree with most of the statements made in this article for one reason. All of the arguments made above are valid and work only if one assumes that a human is a rational and educated creature who will inform him or herself before making a decision or forming an opinion. That however is not true, and sadly enough many of us all fall under pressure by our envirnment and propaganda. These so called insults which one directs towards others under the excuse of freedom of speech are messages of hate. They in themselves want to hurt others and limit the freedom, human rights and the freedom of expression of a particular group. Therefore limiting the "freedom” in the "freedom of speech” is ironically an important part of achieving a more tolerant and civil society.
    Moreover, I completely disagree with the comment made about the Indian Penal Code. The history of the law is completely irrelevant. True, it might have been originally written for a different purpose but it doesn’t mean that it always has to be used just for that same purpose. If freedom of expression was once used as an excuse to limit the rights of colonized citizens, it does not mean that it now should be abolished because of its dirty history. In fact, as the author has stated it himself, there is huge room for interpretation in the issue of free speech, therefore this same law can be used in more noble ways.

  9. As a general principle I definitely agree that free speech should be a universal right. Contentwise, however, there should be restrictions.
    Considering the fact that communication occurs between two subjects, the sender and the recipient, both subject’s values matter in the process. The tricky part in the proposed principle therefore is ‘civility’.
    Civility itself restricts free speech. I think most people agree that the publication of the Muhammad cartoons were not an act of particular civility, because it offended the religious / moral values of the recipient group.
    How can we thus find the balance between the universal right to free speech and non-universal values of sender / recipients?

    • Hello Annemarie. I saw the Danish Cartoons for the first time this week. They were not shown in UK when the furore first broke out, and I didn’t think about them much again until recently (it was the DV8 dance event – Can We Talk About This? – that brought them back to mind, something I saw in London a few weeks ago). I would be disappointed if ‘most people’ agree that their publication was ‘not an act of particular civility’. But I would not be surprised that people had been frightened into saying such a thing after the alarming response of the murderous threats at the time. Remember – the cartoonist was threatened with a violent death: http://www.guardian.co.uk/world/2010/jan/04/danish-cartoonist-axe-attack

      • Hi Janet, apologies for my late response. I hadn’t seen on my account that you commented on my post.
        I just had an argument with a girl studying Human Rights at LSE. In summary, she clearly argued that if she was a cartoonist, she would never (!) publish something which would so obviously assault a certain group. Would you do so? Why do you think that this case was not ‘not an act of particular civility’?

  10. Excellent piece! I agree with almost all of the points made here.

    My only worry associated with this proposed "civil” and courteous free speech is the remarkable ability of the same spoken language to be simultaneously civil and uncivil to different audiences. Accounting for a gradient of such differences in perception, I wonder if the final test of civility in tricky situations will indeed be the lack of violence/ violent overtures. And if that is the case, it may as well be codified as such in law!

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی