مصر کے عرصہ دراز سے گم ہوئے ادب کی تلاش

تاریخدان خالد فہمی بتاتے ہیں کہ کس طرح مصر کی تاریخی کتابیں زیادہ تر مغرب کے کتب خانوں میں پائی جاتی ہیں نہ کہ مصر کے کتب خانوں میں – اور کس طرح مشرق وسطی کی ایک علمی تاریخ پر حال میں مصر میں پابندی لگا دیا گیا.

حالیہ ہفتوں میں میں نے دو ایسے واقعات کا سامنا کیا جن سے مجھے مصر میں کتابوں، پڑھائی اور ثقافت کے حال پر بہت افسوس ہوا. پہلا واقعہ نیو یاک میں پیش آیا ہے اور اس کے لئے کچھ سیاق و سباق ضروری ہے.

پچھلے کچھ سالوں سے میں انیسویں صدی میں مصر کی سماجی اور ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالنے والی ایک کتاب پر کام کر رہا ہوں. اس کتاب میں تب کی تاریخ پر دو ابواب ہیں. پہلا ١٨٢٧ میں قائم کیا قصر العینی طبی مدرسے اور عام ہسپتال کی تاریخ کے بارے میں ہے؛ اور دوسرا ملک میں عوام کی صحت اور اس کی تاریخ کے بارے میں ہے.

ان ابواب میں جو اھم سوال میں نے سامنے رکھا ہے وہ مصر کے سماج میں جدید طب کے بارے میں خیالات کا ہے. میں خاص طور پی ایسے ضوابط پر روشنی ڈالتا ہے جو کہ پہلی نظر میں مذہبی عقائد اور ثقافتی روایت کے خلاف لگتے ہیں جیسے کہ ڈسیکشن، انجیکشن لگانا اور پوسٹ-مارٹم کرنا، خاص طور پر عورتوں کے جسموں کا.

ان سوالات کا جواب ڈھونڈھنے کے لئے میں نے کئی سالوں تک مصر کے قومی محفوظ شدہ دستاویزات میں تحقیق کی. ادھر سے مجھے کئی انتہائی دلچسپ دستاویزات ملے جو ان نئے طریقہ کاروں اور اداروں، جیسے کہ انجیکشن، جدید ہسپتال، حکومتی کلینک اور تفصیلی اعداد و شمار جمع کرنے کے طریقوں، کے سامنے عام مصریوں کے رد عمل پر روشنی ڈالتے ہیں. لیکن مجھے یہ معلوم کرنے میں دقت ہوئی کہ معالجوں کا خود ان نئے ضوابط کے بارے میں کیا خیال تھا.

یہ بات عام علم ہے کہ قاصر العینی طبی مدرسے میں داخل ہونے والا سب سے پہلا بیچ اس سے پہلے الاظہر سے پڑھا ہوئے تھا اور ان کو شریعت اور فقہ کے بارے میں خاصی معلومات تھی. اس لئے میرے لئے یہ انتہائی دلچسپی کا باعث تھا کہ اب اس نئ جگہ پر سکھائی جانے والے جدید طبی علوم کے بارے میں ان کی کیا راۓ تھی.

حالانکہ مصر کے قومی دستاویزات میں قاصر العینی میں آنے والے مریضوں کے بارے میں کافی تفصیل ہے لیکن ان میں اساتذہ اور معالجوں کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہیں.

ادھر میری مدد آیدہ نوسیئر جیسے تحقیق دانوں نے مدد کی جس نے مصر کے سب سے پرانے چھپائی گھر بولاق پریس کی سب سے پہلی کتابوں کو جمع کیا ہے. ہیرانکن طور پر بوراق کے پہلے تیس سال میں چھپنی والی کتابوں میں سے تقریبا ایک تھائی کسی طبی موضوع پر ہیں!

ان میں سے زائدہ تر طبی کتابوں کا قصر العینی کے سب سے پہلے طالب علموں نے فرانسیسی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا تھا، یہ وہ ہی طالب علم تھے جو پہلے الاظہرکے طالب علم رہ چکے تھے. کچھ کتابیں ترجمہ نہیں تھی بلکے اصل میں عربی میں لکھی گئی تھیں. ایسی تیس کتابوں کی فہرست بنا کر میں ان کے ساتھ نیشنل لائبریری میں بیٹھنے کا خواہاں تھا. لیکن میری امیدوں پر جلد ہی پانی اس وقت پھر گیا جب نیشنل لائبریری میں سب کچھ بکھرا ہوا ملا. صارفین کے لئے خدمات کا کوئی انتظام نہیں ہے، کٹییلاگ سے پڑھنے والے صرف اور زیادہ الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور اگر عملے سے مدد مانگی جے تو وہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں!

اس سے بدتر یہ تھا کے میری درکار کتابوں میں مجھے کچھ ہی مل سکیں. زیادہ تر کتابیں جن کا میں مطالعہ کرنا چاہتا تھا وہ ادھر موجود ہی نہیں تھی. جب میں نے نام نہاد لائبریین سے اس بارے میں معلومات کی تو وہ اس بات پر حیران ہوئے کے کوئی بھی عقلمند آدمی کو اتنی پرانی طبی کتابوں کو دیکھنا چاہے گا اور ساتھ ساتھ مجھے مضحکہ خیز نظروں سے دیکھنے لگے. انہوں نے مجھے سختی سے یہ کہہ دیا کہ یہ کتابوں یا تو گمشدہ ہیں یا بحالی کے لئے گئی ہوئی ہیں یا کسی غلط شیلف میں پڑی ہیں. میں نے ان کتابوں کو پڑھنی کی ساری امیدوں کو خیرباد کہہ دیا اور اس بہترین اور غیر شائع شدہ مواد پر اکتفا کیا جو مجھے نیشنل آرکائیو سے ملا تھا.

حیران کن طور پر مجھے یہ کتابوں نیو یارک میں مل گئیں. دو ہفتے پہلے میں نیو یارک یونرستی کے بوبسٹ کتب خانے کچھ حوالات چیک کرنے گیا. بوبسٹ میں آنے والے ہر انسان کو پتا ہے کہ فلپ جانسن نے بلڈنگ کا یہ دضائیں صرف اس لئے کیا تھا کے ادھر قارئین کو چکّر آ جائیں. اتنے سالوں سے اس کتب خانے میں کام کرتے ہوئے میں ہمیشہ اس کے وسیع، جگہ برباد اور چکرا دینے والے لائٹ شافٹ کے اندر دیکھنے سے سے گریز کرتا ہوں اور سیدھا تہ خانے کی طرف جاتا ہوں. ادھر مجھے یہ پتا چلے کہ بوبسٹ میں بولاق کی سب سے پہلی طبی کتابوں میں سے ٨٩ کا مائکرو فیش پر ریکارڈ موجود ہے. یہ میرے لئے انتہائی زیادہ خشی کا باعث تھا.

یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ یہ زبردست مصری کتابیں خود مصر کی نیشنل لائبریری میں موجود نہیں تھیں، مجھے یہ پتا چلانے کی جستجو ہوئی کہ ان کی مائکرو فیش کاپی دور دراز نیو یارک میں ایک یونیورسٹی کی لائبریری میں کس طرح پہنچ گئی.

ہر فیش کے اپر ایک چھوٹے سے نشان نے مجھے اس کا سراغ لگانے میں مدد کی. ان کے اصل کاغذی ورژن لندن یونرستی کے کالج سواس میں موجود تھے. ایک سوال باقی تھا: لندن یونیورسٹی کو انیسوی صدی کی فرانسیسی سے عربی میں ترجمہ کی ہوئی کتابوں کا کیا کام؟

معاملہ اور دلچسپ ہوتا جا رہا تھا. مائکرو فیش کا مجموعہ صرف ربی کتابوں تک محدود نہیں تھا بلکے ان میں اطالوی زبان میں ریشم کو رنگنے کے طریقے کے کتابچہ کا عربی ترجمہ بھی شامل تھا جو کہ بولاق سے چھپی سب سے پہلی کتاب تھی (١٨٢٣). مجموعے کی سب سے نئی کتاب ١٨٥٠ میں چھپی ریاضی کی ایک کتاب تھی.

یونیورسٹی آف لندن کا بولاق کی یہ عجیب پبلیکشنوں کو حاصل کرنے میں کیا دلچسپی تھی؟ اور اگر وہ اس پرانی پریس کی سب سے پرانی چھپی کتابوں کو محفوظ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں (جو کہ مصر کی نیشنل لائبریری بظاہر نہیں کرنا چاہتی!)، تو انہوں نے ١٨٥٠ کے بعد بولق کی کتابیں حاصل کرنا کو بند کردیں، جب کے پریس تو ابھی تک آپریشن میں ہے؟

مجھے لگتا تھا کہ اس سوال کا جواب اس ک اگلے سال ہونے والے ایک واقعے میں تھا، یعنی کے ١٨٥١ میں لندن کے ہائیڈ پارک میں کرسٹل پیلیس نمائش کی ابتدا. جیسے کے عام معلومات ہے، یہ عالمی میلے کی نمایشات میں سے پہلی نمائش تھی جو کہ بعد میں ویانا، شکاگو اور پیرس جیسے شہروں میں بھی منعقد کی گئی. ١٨٥١ کا لندن میلہ، ان شاندار نمائشوں میں سے پہلا ہونے کے علاوہ خاص طور پر صنعتکاری اور ٹکنالوجی کا جشن منانے کے لئے منعقد کیا گیا تھا. ملکہ وکٹوریہ کے کونسورٹ شہزادہ ایلبرٹ کا انتظام شدہ یہ میلہ اس نئے یقین کی عکاسی کرنے کے لئے تھا کہ صنعتکاری اور ٹکنالوجی میں انسانیت کے تمام خوابوں کی تکمیل ہے. شیشے اور لوہے کا تیار شدہ کرسٹل پیلیس انسان کی قدرت پر جیت کی عکاسی کرتا تھا.

یہ بات کم لوگوں کو پتا ہے کہ اس نمائش میں مصر نے بھی حصہ لیا تھا اور مصر کا خیمہ ترکی کے خیمے جتنا ہی بڑا تھا حالانکہ قانونی طور پر مصر سلطنت عثمانیہ کا محظ ایک صوبہ تھا.

گوگل کی آن لائن فراہم شدہ نمائش نمائش کے سکین اور محفوظ کئے ہوئے کیٹیلاگ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے مصر سے بھیجی ہوئی اشیاء کی ایک تفصیلی فہرست ملی جس سے مصر سے اس وقت سائنس اور ٹکنالوجی کا معیار ظاہر تھا. نمائش میں موجود ٣٩١ اشیاء میں مصری ہل، روسیٹا سے پودینے کا پانی، ایک پانی کا پائپ، ‘بھورے بیور میں فیلاح کی ٹوپی’ اور ابراہیم پاشا کی فیکٹریوں سے رفآئند چینی شامل تھی. اور اس حیران کر دینے والی اشیاء کی لسٹ میں نمبر ٢٤٨ پر یہ انٹری ہے: “بولق پر چھپی ترکی، عربی اور فارسی میں چھپے ایک سو پینسٹھ والیوم.”

اسی طرح یہ کتابیں یونیورسٹی آف لندن کی لائبریری تک پہنچی ہونگی. کپتان عبدل حامد کے زیر نگرانی وفد جب مصر واپس لوٹا ہوگا تو انہوں نے ان کتابوں کو لندن میں ہی چھوڑ دیا ہو گا جن کو بعد میں یونیورسٹی کو دے دیا گیا ہو گا.

مجھے اس کہانی کی سب سے حیران کن بات یہ لگی کہ ١٨٥١ میں جب مصری افسران نے اس عظیم میلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے بولاق سے چھپی ١٦٥ کتابوں کو بھی اس کا حصہ بنانے کا سوچا. دوسری اشیاء کی عام نوعیت سے پتا چلتا ہے کہ ان کتابوں کو مصری خیمے میں بہت اونچا درجہ حاصل ہوگا.

یہ یقیناً ایک قابلِ فخر بات ہو گی. جدید طبی کتب کا یہ مجموعہ، جن کو کچھ برس پہلے ہی فرانسیسی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا گیا تھا، نہ صرف جدید طبی معلومات کا نمونہ تھیں بلکے بہترین کاغز پر شفاف اور خوب صورت خطاطی اور قابل رشک چمڑے کی جلد میں کتابیں تیار کرنے کی صلاحیت کی گواہی بھی.

جس طرح میں نے بہت خوشی سے بوبسٹ کے تہہ خانے میں کیا، جب کوئی شخص ان کتابوں کو غور سے پڑھتا ہے تو ایک اور حیران کن بات سامنے آتی ہے. سب سے پہلے تو یہ عرب ایڈٹروں  اور ترجمہ کرنے والوں کے شاعرانہ تعارفات سے پتا لگتا ہے کہ نہ صرف وہ عرب-اسلامی طبی روایات کے بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے لٹریچر سے پوری طرح واقف تھے بلکے اس جدید طبی لٹریچر میں اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اس میں اضافہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے. ہم ان میں قصر العینی طبی مدرسے اور بولاق پریس کے کارناموں کے بنا ایک گہرا اعتماد اور فخر محسوس کر سکتے ہیں. یہ دیو ہیکل پراجکٹ، جیسے کے ہم آج کل اکثر کہتے ہیں، “‘دوسرے’ سے چرانے’ یا ‘مغرب کے معیار تک آنے کے لئے’ ہرگز نہیں تھا، بلکے اس کا مقصد مصر میں ایک ایسے فن کو پھر سے زندہ کرنا تھا جو ایک زمانے میں ادھر پھلتا پھولتا تھا پر بہت عرصے سے ختم ہو چکا تھا.

کئی دن تک ان کتابوں کا پیچھا کرنے اور اس سے بھی زیادہ دنوں تک ان کو پڑھنے کے بعد میرے اپر ایک گہری اداسی چھا گئی. ادھر میں نیو یارک کی ایک لائبریری میں بیٹھا ایسی کتابیں پڑھ رہا تھا جو قاہرہ میں چھپی تھیں پر جن کو میں اپنے گھر میں ڈھھونڈنے سے قاصر رہا تھا. جب کے یونیرسٹی آف لندن کی لائبریری نے ایک ادارے کے طور پر ان کتابوں کو مائکرو فیش میں محفوظ کر کے اور ان کو وسیع تر قارئین تک پہنچا کر اپنا کردار ادا کر دیا تھا، ہماری لائبریریوں میں ابھی تک علم کو چھپا کے رکھنے اور اس کو اکثر کھو دینے کا رواج بدستور قائم ہے، اور ان میں وہ کتابیں شامل ہیں جن کو بہت نادر اشاعات سمجھا جاتا ہے.

اور پھر میں نے اپنے آپ کو اس کالم کے شروع میں اشارہ کئے ہوئے دوسرے معاملے سے مد مقابل ہوتے ہوئے پایا. ان ہی دنوں کے اس پاس جب میں ان قیمتی کتابوں کے ملنے کی خوشی میں سرشار تھا، مجھے معلوم ہوا کہ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی (اے یو سی) میں میں نے اپنے ایک کورس کے لئے جس کتاب کی درخواست کی تھی اس پر قومی آفس برائے سنسرشپ نے پابندی لگا دی ہے.

اس کتاب کا شمار، ولیم کلیولینڈ اور مارٹن برٹن کی ‘جدید مشرق وسطیٰ کی تاریخ’، اس موضوع پر سب سے بہترین کتابوں میں ہوتا ہے اور اس کو اے یو سی میں اس سے پہلے بھی کئی بار استعمال کی جا چکی ہے. اس معاملے کے بارے میں اور تفتیش سے پتا چلا کہ قومی آفس برائے سنسر شپ (جی ہاں بعد ازانقلاب مصر میں بھی ایک ایسا آفس ہے) نے اس کتاب میں کچھ ایسے نقشوں پر اعتراض اٹھایا تھا جن میں صلاحتین اور ہلاےیب کو مصر-سوڈان سرحد کے مخالف حصوں میں دکھایا گیا ہے. آخر میں آفس نے یہ رعایت کر دی کے ان نقشوں کو ہاتھ سے ٹھیک کر دیا جائے، جس کے بعد ان پر سے پابندی ہٹا دی گئی.

ان دو واقعات کے بارے میں سوچتا ہوئے میں ہمارے ١٨٥١ اور ٢٠١٢ کے حالت میں موازنہ کرنے سے اپنے آپ کو نہیں روک سکا. انیسویں صدی کے درمیان میں ہم ایک صحیح معنوں میں مہذب قوم تھے. ہم سائنسی تحقیق کو ایک کھلے دماغ سے دیکھتے تھے، اور اس کی افادیت یا اس کی اصلیت اور ہماری قومی سلامتی اور شناخت پر اثرات کا نہیں سوچتے تھے. اس کے برعکس ہماری آج کی یونیورسٹیاں اور لئبریریاں ان کتابوں کو بھی بچانے سے قاصر رہیں ہیں جن کو ایک وقت میں ہم نے خد ہی ترجمہ کر کے چھاپا تھا. اور اب اپنی سائنسی کامیابیوں کو کھونے کے بعد ہمیں اپنی ہی تخلیقات کو غیر ملکوں میں ڈھونڈنا پڑتا ہے.

زخم میں نمک چھڑکنے کی مانند، ہم نے اپنی قومی سلامتی کی حفاظت کی ذمہ داری ایک ایسے آفس کے ملازموں کو سونپ دی ہے جو اپنے آپ کو ‘آفس براۓ سنسرشپ’ کہلانے کی جرت کرتے ہیں اور جو اپنی نا اہلی سائنس، علم اور تحقیق کے متعلق کسی بھی چیز کی نا معلومی سے ظاہر کرتے ہیں.

میرا غم، بلکے شدید غصہ، اس بات پر نہیں کہ ہمارے قومی سلامتی کے محافظوں کی طرف سے تحقیقی اور اظہار راۓ کی آزادی کو کیا نقصانات ہو رہے ہیں. بلکے میرے غصے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ قومی سلامتی کبھی کتابوں پر پابندی سے نہیں حاصل کی جا سکتی. بلکے یہ کتابوں کو پھیلانے سے حاصل ہوتی ہے.

خالد فہمی قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں تاریخ کے ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر اور چیئر ہیں. اس کالم کو اصل میں عربی میں ادبی خبر اور انگریزی میں احرام آن لائن نے چھاپا تھا. یہ ادھر پبلشر اور مصنف کی اجازت سے چھاپا جا رہا ہے.

مزید پڑھئے:

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی