کیا ہندوستان کو بھی اپنے لیویسن کی ضرورت ہے؟

ہندوستان میں بھی میڈیا ریگولیشن پر ایک زبردست بحث چل رہی ہے. آرگھیا سینگپتا کہ ناکام سیلف ریگولیشن سے قانونی ریگولیشن تک کے اقدام پر ١٩٧٠ کی ایمرجنسی کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہیں.

لارڈ جسٹس لیویسن کی برطانوی میڈیا پر بڑے پیمانے پر متوقع رپورٹ ہندوستان کے لئے کافی دلچسپی کا باعث ہوگی کیوں کے ادھر بھی ایک تیزی سے طاقت پکڑتی ہوئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ریگولیشن کی گرما گرم بحث پچھلے ایک سال سے جاری ہے. پریس کونسل آف انڈیا کے سرگرم چیرمین مرکانڈے کاٹجو نے خدساختہ ریگولیشن کو یہ کہہ کر بیکار قرار دے دیا ہے کہ ‘خدساختہ ریگولیشن کوئی ریگولیشن نہیں’. اس کے حل کے لئے انہوں نے اپنے ادارے کے لئے زیادہ اختیارات کا مطالبہ کیا ہے. آزادی اظہار راۓ اور منصفانہ مقدمے کے حقوق کے درمیان آئینی لنک پر سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے نے خدساختہ ریگولیشن کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے اور جاری مقدمات پر میڈیا رپورٹوں کو طلب کیا ہے.

نئے وزیر برائے معلومات و نشریات منیش ٹیواری نے عہدہ سمبھالنے پر کہا کہ حکومت میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی لیکن ان کے پارٹی ساتھ میناکشی نترجن کی طرف سے لایا گیا ایک نجی ممبر بل اس کے مخالف ہے.میڈیا کے اندر راۓ اس معاملے پر کافی بٹی ہوئی ہے. ہندو کے ایڈیٹر سدھارتھ ورادراجن نے زیادہ خدسہتا ریگولیشن کے حق میں بات کی ہے. جبکہ نئی دلہی کے سی ای او پرنوئے روئے نے حال ہی میں آکسفورڈ میں بات چیت کرتے ہوئے آزاد بیرونی ریگولیشن کی حمایت کی.

ان بیانات کو ساتھ دیکھا جائے تو یہ ظاہر ہوتا کہ موجودہ حالات سے زیادہ ریگولیشن کی ضرورت پر تو اتفاق ضرور ہے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ اس کو حاصل کرنے کا سب سے مناسب طریقہ کیا ہے. (ہو سکتا ہے کہ یہ برطانوی صارفین کے لئے جانی پہچانی سے پوزیشن ہو!)

کسی بھی قسم کی ریگولیشن میں تبدیلی پر بحث زیادہ مؤثر خدساختہ ریگولیشن سے شروع ہوتی ہے. لیکن ہندوستان میں اس پر بات دو وجوہات کی بنا پر مشکل ہے. اولا ً تو ‘خریدی ہوئی خبر’ کے بڑھتے ہوئے الزامات ہیں یعنی کہ پیسے لے کر لکھ گئے آرٹیکل جو کہ میڈیا گھروں کی طرف سے بنیادی اخلاقی ذمہ داری  اور اندرونی طرز عمل کے قوانین کی حیرانکن خلاف ورزی ہے. ایک حالیہ سیمینار کے دوران سابقہ چیف الیکشن کمیشنر ایس وائی قریشی نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے بہار، تامل ناڈو، مغربی بنگال، اسام،کیرالہ اور پدوچیری میں ریاستی الیکشنوں کے دوران انہوں نے پیسے لے کر خبر لکھنے کے ٣٧١ کیس دریافت کئے. یہ اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہا تھا کے انہوں نے خبر کے لئے پیسے دینے کو ایک قابل سزا جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی. میڈیا میں گرتے ہوئے اخلاقی اقدار کی اکاسی کرنے والے یہ عدادوشمار دیکھتے ہوئے یہ توقع کرنا کہ یہ خدساختہ ریگولیشن کریں گے نہایت ہی بھولپن ہو گا.

دویم کوئی ایسا آزاد، مؤثر اور اپنے احکامات کا احترام کرانے والا ادارہ موجود ہی نہیں جو کہ میڈیا کی ریگولیشن کرے اور ان کو سزائیں دے. ہندوستان میں ‘رچرڈ ڈسمنڈ مسئلہ’ کی طرح انڈیا ٹی وی نے نیوز براڈکاسٹر ایسوسیشن (این بی اے) سے اپنی ممبرشپ اس وقت ہٹا لی جب اس کی تنازعات کے حل کے ادارے نے اس پر جرمانہ عائد کیا. ایسوسیشن اپنے فیصلہ پر عمل درآمد کرانے اور پابندیاں عائد کرنے میں بے بس دیکھی جس کی وجہ سے اس کی ساکھ پر سنگین اثرات پڑے. این بی اے اور انڈسٹری کے دوسرے ریگولیٹروں کی ممبران میں اپنے فیصلوں کی مؤثر عمل درآمد نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدساختہ ریگولیشن عملی طور پر ناممکن دکھائی دی ہے.

مؤثر خدساختہ ریگولیشن کی آدم موجودگی میں قانونی ریگولیشن کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے. لیکن میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی زیادہ تر بحث پر ہندوستان کی تاریخ کے تاریک ساۓ چھائے ہوئے ہیں اور خاص طور پر ١٩٧٥ اور ١٩٧٧ کے درمیان کا ایمرجنسی کا وقت جب آزاد پریس کو بےدردی سے دبایا گیا تھا. جبکہ یہ بات درست ہے کہ ایمرجنسی ہندوستان میں آزادئ اظہار راۓ کے لئے سب سے تاریک لمحہ تھا، قانونی ریگولیشن کی ہر بات کے جواب میں اس کا اطلاق کرنا ٹھیک نہیں. ایمرجنسی کو آئین کے مطابق جائز طریقے سے رائج کیا گیا تھا جس کے تحت دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار راۓ کا حق بھی تلف ہو گیا تھا. اگر حکومت پھر سے ایسا کوئی قدم اٹھانا چاہے تو اس کو میڈیا ریگولیشن کے کسی قانون کی ضرورت نہیں پڑے گی. اور یہ تردید کہ اس قانون سے آمادگی میڈیا کے خلاف بے جواز ریگولیشن کے دروازے کھول دے گا جذبات اچھالنے کے لئے تو مؤثر ہو سکتا ہے لیکن عملی طور پر غلط ہے. موجودہ وقت میں بھی کئی قانون میڈیا کو ریگولیٹ کرتے ہیں جیسے کہ بدنامی کے قوانین اور ایسے قوانین جو کہ صحافیوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں. ان میں میڈیا آپریشنوں کو ریگولیٹ کرنے کا قانون اسی فہرست میں اضافہ کرے گا نا کہ کوئی نیا باب کھولے گا.

قانونی ریگولیٹر میں حکومتی مداخلت اتنا ضروری مسئلہ نہیں بلکے اس کی بلا ماخذ تمام بیرونی مداخلات اور دھمکیوں سے آزادی زیادہ بڑا مسئلہ ہے. ایک آزاد ریگولیٹر کی اصولی طور پر خلاف ورزی کرنا مشکل ہے اور اس کی ہندوستان میں کافی حمایت ہے جیسے برطانیہ کے پریس گیزٹ سروے نے ثابت کیا ہے. اس کا امیج ایک منصفانہ، دانشمندانہ اور مؤثر فیصلہ دینے والے کا ہے. لیکن ہمارا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ اصل میں یہ ہونا کافی مشکل ہے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک آزاد ریگولیٹر ہونا ناممکن ہے بلکے یہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عملی طور پر آزادی بڑی بڑی باتیں نہیں بلکے تفصیل پر توجہ سے آتی ہے. یہ سوالات خاص طور توجہ کا باعث ہیں کہ کس کی آزادی کس سے، کس معاملے میں، اور یہ کس طرح بچائی جائے گی یہ ذہن میں کہتے ہوئے کے ریگولیٹر خود احتساب کے دائرے سے باہر نہ ہو جائے. اس ارے میں سنجیدہ سوالات اور بحث ہونی چاہیے کیوں کہ ہندوستان میں آج میڈیا کی طاقت کا مطلب یہ ہے کہ آزادی کا مطلب صرف حکومتی مداخلت سے آزادی نہیں ہو سکتا.

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریگولیٹر چاہے جتنا بھی آزاد کیوں نہ ہو تمام مسائل کا حل نہیں ہو سکتا. یہ خریدی ہوئی خبروں م مسئلہ ہے. راڈیا ٹیپوں میں ظاہر ہوئے سیاستدانوں، صحافیوں اور کارپوریشنوں کے درمیان قربت جن میں ریونیو حکام نے کارپوریٹ لابیسٹ نیرا راڈیا اور کئی سارے معروف صحافیوں اور سیاستدانوں کے درمیان گفتگو کو ریکارڈ کر لیا تھا،ان سب کے درمیان قریبی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہیں. غیر ذمہ درانہ صحافت کہ بھی کئی الزامات ہے. حال ہی میں خارجہ امور کے وزیر سلمان خرشید نے آج تک نیوز چینل پر ان کی اور ان کی اہلیہ کی ایک این جی او پر کرپشن کے غلط الزامات لگانے کا الزام لگایا. یہ سب ایک یا دوسسرے طریقوں سے صحافت میں اخلاقیات کے زوال، ہندوستانی میڈیا اور خاص طور پر اس کے معاشی امور میں شفافیت کے فقدان اور بدنامی کے قوانین کے غیر مؤثر نفاذ کی طرف اشارہ کرتے ہیں.

ہلانکے یہ سچ ہے کہ ایک مؤثر اور آزاد ریگولیٹر کچھ نہ کچھ احتساب کر کے ایسے واقعات کو کم کر سکتا ہے، یہ ہندوستانی میڈیا کے تمام مسائل کو حل کر دینے والی کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہو گی. یہ ایک لمبی کاروائی ہو گی جس میں نئے خیالات، اصلاحات اور مستقل مداخلات کلیدی کردار ادا کریں گے. لیویسن رپورٹ کی تجاویز کو غور سے پڑھنا اور ہندوستان کے لئے ان کی افادیت ایسی کروائی کے لئے اچھی شروعات اور موجودہ طور پر ایک پھنسی ہوئی بحث کو نئی زندگی بخشنے کے لئے ایک اچھا قدم ثابت ثابت ہو سکتا ہے. اور پھر ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں لیویسن انکوئری کا ایک اپنا ورژن کیا جا سکے.

آرگھیا سینگپتا آکسفورڈ یونیورسٹی کے پیمبروک کالج میں انتظامی قانون کے لیکچرار ہیں اور نیو دلہی میں قائم قانونی تھنک ٹینک ودھی سینٹر برائے لیگل پالیسی کے بھی بانی ہیں.

مزید پڑھئے:


تبصرے (3)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. Let me remeber the book wrote by The Commission on Freedom of the Press. Sometimes, government acted as a censor in order to improve the communication curcumstance is a responsible behavior to public. Therefore, if media cooperations don’t wanna be forbidden by others, they need to scrutinize their reports, whether conscientious or not.

    • Hi Alexander, that’s an interesting comment. Have you seen this article by Daniel Bell, about whether the freedom to write should be more important than the truth of what you write: http://www.huffingtonpost.com/daniel-a-bell/freedom-over-truth_b_2188739.html

      • I have seen it before. In fact, in many aspects, I disagree with his opinions, especially relating to China. He is working in Tisinghua University now.
        Freedom of speech does not mean freedom of the press. There is no doubt that we should hurt for free speech. It’s one of our basic right. Even though free press is a essencial part of freedom, they are not the same element.
        We must recognize media also have a kind of right, one day, maybe it will become evil prvilege of the media owners if nobody can restict them.
        However, the reason why I deny the views from Daniel is that all our efforts to make rules and limitations are for safeguard of equal freedom. Ahead of that, We should first consider the public interest, but not one person.

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی