صحافیوں کو پرائیویسی میں مخل ہونے کا خدائی حق حاصل نہیں

صحافی جان کیمپفنر کی تنقید کے جواب میں آزادئ اظہار راۓ کے معروف ماہر ایرک باریںڈٹ کا برطانوی پارلیمنٹ کی پرائیویسی رپورٹ کا دفاع

توقع کی مطابق پرائیویسی اور عدالتی احکامات سے متعلق ایوان بالا اور ایوان عام کی مشترکہ کمیٹی کی رپورٹ کو شائع ہوتے ہی اخبارات میں رد کر دیا گیا. گارڈین (مارچ 23، 2013) میں جان کیمپفنر کے چبھتے ہوئے حملے کی سرخی نے چیخ کر اعلان کیا: “رازداری و پوشیدگی (پرائیویسی) سے متعلق مزید سخت قوانین صرف امراء اور طاقتور کے مفاد میں ہیں”. کیمپفنر نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کمیٹی پر موجود ممبر پارلیمنٹ اور امراء نے آزادئ اظہار سے صرف زبانی ہمدردی جتائی ہے، جس سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ پرائیویسی کے قوانین زیادہ تر سیاستدان ان عوامی سکینڈل کو چھپانے میں استعمال کرتے ہیں جن کو میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنا چاہیے. کمپفنر خاص طور سے کمیٹی اس سفارش پر تشویش کا شکار ہے کہ سیرچ انجنوں کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ “ہر ایسے مواد کو جو پرائیویسی کی خلاف ورزی قرار دے دیا جاۓ، نہ صرف سیرچ بلکہ انٹرنیٹ سے ہی ڈیلیٹ (ختم) کر دے”.

یہ تنقید غیر منصفانہ ہے. پہلی بات یہ کہ کمیٹی نے، جیسا کہ گارڈین کی سرخی سے ظاہر ہوتا ہے، “مزید سخت” یا ظالمانہ پرائیویسی قوانین کی سفارش نہیں کی. کمیٹی نے یہ ضرور غور کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر عدالتیں آزادئ اظہار (جس میں اخبارات بھی شامل ہیں) اور حقوقَ پرائیویسی کے درمیان صحیح توازن برقرار رکھے ہوۓ ہیں. یورپی کنونشن براۓ انسانی حقوق میں ان دونوں حقوق کی ضمانت ہے، اور اب یہ انسانی حقوق ایکٹ ١٩٩٨ کے ذریعے برطانیه کے قانون کا حصّہ ہیں. عدالتیں اور ایسے تمام ادارے مثلا سابقہ کمیشن براۓ پریس شکایات جو پرائیویسی سے متعلق شکایات کا فیصلہ کرنے پر معمور ہوں، کو تمام حقائق کی روشنی میں اس بات کا تعین کرنا ہو گا کہ آیا کسی بھی مخصوس حالات کے پیش نظر پرائیویسی آزادی راۓ سے زیادہ اہم ہے یا پھر آزادی راۓ فرد کی حق پرائیویسی پر سبقت لے جاتی ہے. پرائیویسی سے متعلق زیادہ تر قانونی چارہ جوئی سیاستدانوں کے بجاۓ جوہماری زندگیوں پر اثرانداز ہونے والے اہم سماجی اور اقتصادی فیصلے لیتے ہیں، فٹبال کے کھلاڑیوں اور دیگر مشہور شخصیات کی طرف سے ہوتی ہے، جو اپنی نجی جنسی زندگی سے متعلق تفصیلات کو صیغہ راز میں رکھنا چاھتے ہیں. بہرحال یورپی عدالت براۓ انسانی حقوق کے تحت سیاستدان بھی کسی قدر پرائیویسی کا حق رکھتے ہیں؛ مثلا اس بات کا صحیح اندازہ نہیں کہ یہ جاننے میں عوام کی کیا دلچسی ہو سکتی ہے کہ ایک ممبر پارلیمنٹ کا اپنی سیکریٹری سے تعلق ہے، یا رہا ہے، جب کہ اس بات کا یہ ثبوت نہ ہو کہ یہ عمل ایوان عام میں ممبر کی شمولیت یا پھر اپنے حلقے کی نمائیندگی کی صلاحیت پر اثرانداز ہو رہی ہے.

یہ بات تو طے ہے کہ امراء اور طاقتور باقی لوگوں سے زیادہ پرائیویسی کے قوانین کا استعمال کرتے ہیں. لیکن اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اخبارات اور دیگر میڈیا عام شہریوں کے بمقابلے میں – جس سے قارئین اور ناظرین کی اکثریت کو کوئی دلچسپی نہیں – ان کی نجی زندگیوں کے بارے میں، خاص طور سے ان کے جنسی تعلقات کے بارے میں بہت زیادہ مواد شائع کرتے ہیں. مزید یہ کہ جیسا کہ رپورٹ میں ذکر ہے (پیرا ١٣٦) صرف امیر طبقہ ہی عدالت میں کیس کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے. یہ حقیقت پرائیویسی قوانین کے خلاف کسی اعتراض کا باعث نہیں ہونی چاہیے، بلکل اسی طرح جسے رٹز یا ڈورچسٹر جسے ہوٹلوں کی مہنگائی ان کے وجود کے خلاف اعتراض نہیں ہے. اس کا حل قانونی چارہ جوئی کے اخراجات میں کمی ہے، یا اس بات کو یقینی بناںا کہ عام لوگوں کو – جن کی زندگیاں بھی کبھی کبھار میڈیا کی نظر میں آ جاتی ہیں – اپنی پرائیویسی کی حفاظت کی لئےخصوصی سستی عدالتوں تک رسائی حاصل ہو. رپورٹ کے پانچویں باب میں کمیٹی نے اصلاح شدہ میڈیا ریگولیٹر کے ذریعے پرائیویسی کی حفاظت کے لئے چند سمجھدارانہ تاہم عارضی سفارشیں پیش کی ہیں، ان میں پرائیویسی کی شکایات کے فیصلے کے لئے متبادل طریقه کار کی تجویز شامل ہے (پیرا ٢٠٣ – ٢٠٩ دیکھئے)، لیکن کسی وجہ کی بنا پر ان سفارشات کو کیمپفنر کی تنقید میں نظر انداز کیا گیا ہے.

اصل مثلہ یہ ہے کہ حقوق پرائیویسی کو کس طرح نافذ کیا جاۓ، جب کہ وہ ٹویٹیروں، بلوگروں، اور – افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ غیر زمہ دار ارکان پارلیمنٹ (پارلیمنٹ میں پرائیویسی اور اظہار راۓ کے مابین رشتے پر باب ٦ملاحظہ کیجئے) کے لئے نظر انداز کرنا اس قدر آسان ہے. روایتی ذرائع ابلاغ سے عموماً توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ عدالتی احکامات کی تعمیل کریں گے، جس میں کسی دعویدار کا نام کا پوشیدہ رکھنا شامل ہے؛ ان کو اندرونی اور اس کے علاوہ قانونی مشاورت حاصل ہوتی ہے، جب کہ ایڈیٹر، خاص کر مقامی اورعلاقائی اخبارات کے، یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ذاتی پرائیویسی میں مداخلت خاصی مہنگی پڑ سکتی ہے، اور وہ جس کمیونٹی میں کام کر رہے ہیں وہاں ان کی شہرت کو ٹھیس بھی پہنچ سکتی ہے. ہم بلوگروں اور ٹویٹیروں کے بارے میں ایسا کچھ بھی یقین سے نہیں کہ سکتے کہ وہ قانون کا احترم کریں گے؛ بلکہ وہ شاید عدالتی احکامات کی بخوشی خلاف ورزی کریں، خاص طور پر اگر وہ پرائیویسی کی قدروقیمت کے بارے میں شبہ کا شکار ہیں.

لہٰذا کمیٹی نے حقوق پرائیویسی کی، خاص طور سے آن لائن ماحول میں (دیکھئے پیرا ٩١ – ١١٩)، بہتر حفاظت کے لئے چند ایک سفارشات پیش کی ہیں. ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی ویب سائٹ کے مواد کی حقوق پرائیویسی کی خلاف ورزی کے حتمی عدالتی حکم کے بعد ، گوگل اور دیگر سرچ انجنوں کی حوصلہ افزائی کی جاۓ – یا بضرورت قانون کے ذریعے مجبور کیا جاۓ کہ وہ اس ویب سائٹ کے لنکس ہٹا دیں.گوگل کی جانب سے پیش کیے گے ثبوت کے مطابق اگر تکنیکی طور پرویب سائٹوں تک رسائی کو روکنا ممکن بھی ہو، تو اصولی طور پر اس قسم کی نگرانی قابل قبول نہیں (دیکھئے پیرا ١١٠-١١٥). ظاہر ہے کہ کمیٹی نے اس نقطہ نظر پر نکتہ چینی کی، کیونکہ میکس موسلے کی بحث کے عین مطابق، یہ رویہ عدالتی احکامات کے نفاذ میں ہچکچاہٹ ظاہر کرتا ہے. گوگل کے تعاون کا مطلب یہ نہیں کہ مواد خلاف ورزی کرنے والی ویب سائٹ سے ہٹا دیا جاۓ گا، بلکہ اس تک رسائی محدود کر دی جاۓ گی، جوکہ ایک یکسر مختلف معاملہ ہے.

دو ملتے جلتے بنیادی خیالات مشترکہ کمیٹی کی رپورٹ کی میڈیا میں تنقید کا باعث ہیں – جو کہ عمومی طور پر اپنی سفارشات میں قدرے محتاط اور قدامت پسند ہے. پہلا یہ، کہ صحافیوں اور دوسرے مبصرین کے لئے یہ فرض کر لینا نہایت آسان ہے کہ جو کچھ بھی وہ لکھتے ہیں وہ بنیادی انسانی (اور قانونی) حق آزادی اظہار (یا تقریر) کے تحت محفوظ ہے. ظاہر ہے ایسا نہیں ہے – لیکن زیادہ تر ایسا ہی ہے. یہ بات صحیح حد تک ثابت نہیں کہ مشہور شخصیات کی انتہائی نجی چٹپٹی تفصیلات، درست ہونے کے باوجود، آزاد تقریر کی شق کے تحت حفاظت کی مستحق ہیں. دوسرا یہ کہ خود پرائیویسی کی اہمیت نظرانداز کی جاتی ہے یا اس کو بدنام کیا جاتا ہے، شاید اس لئے کے اس کا دعوی کئی صورتوں میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے – مثلا امریکہ میں اسقاط حمل کے حق کو پرائیویسی کا ایک پرتو قرار دیا جاتا ہے. لیکن پرائیویسی بہرحال ایک بنیادی حق ہے، اس کے بغیرہمارے پاس سانس لینے کی کوئی جگہ نہ ہو گی، نہ کوئی مؤثر مواقع ہوں گے، جن سے ہماری انفرادی شخصیت میں ارتقاء پیدا ہو، یا کبھی ہم واقعی کسی گفتگو کا آغاز کر سکیں. مزید یہ کہ کسی بھی گہرے تعلق یا بےتکلفی کے لئے پرائیویسی ناگزیر ہے. حقوق پرائیویسی کا قلع قمع – جو ابلاغ عامہ میں اس قدر بحث کا غیر ارادی نتیجہ ہے – سرکاری اور نجی زندگی کے درمیان کی حد کو تباہ کرگزرے گا، جس میں ہم سب کا نقصان ہے.

یہ مضمون یوروزین پر دوبارہ شائع ہوا.

ایرک بارینڈٹ، ایمریٹس پروفیسر قانون، یوسی ایل، کلاسیکی تصنیف حوالہ تقرر کی آزادی (او یو پی) کے مصنف ہیں اور بحث براۓ آزادی اظہر کے مشیر ہیں.

مزید پڑھئے:


تبصرے (1)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. Privacy needs to be protected regardless of ones status in the community and journalists do not have the right to invade ones privacy by whatever means available under the guise of Freedom of Speech. You only need to look at the case involving News Corp hacking the phones of celebrities, dignitaries, royals and even victims of 9/11 to know that the lines are no only blurred but bordering on obliteration.

    News should be that which is deemed relevant to the populace. It should directly impact our lives or offer valuable information. It should be meaningful, and not be the loose facts or, in many cases, pure fiction that makes up todays tabloid papers.

    Does the public need, much less, have a right to know the inner workings of another’s personal life; I don’t think so. Sure, it may be interesting fodder for the morning coffee klatch or water cooler collective to discuss what celebrity, politician or sports figure is dating who, having an affair, dines at what restaurant or has bad breath, but is it really fair much less necessary. If you argue as public figures they give up the right to privacy, as has been done repeatedly, where does it stop. What in this digital age constitutes a “Public Figure”? If it is broadly defined as one whom the public can easily have knowledge of, then to one extent or another we are all becoming public figures. Would you like to have your life exposed and under the same scrutiny as a celebrity. Just because they have a job that puts them on film should it really mean they are no longer private citizens?

    If you have a blog with 50,000 followers are you now fair game, has your notoriety elevated you to the status of losing your right to privacy. What if you have 2,500 friends on Facebook or post a video on Youtube exposing yourself to millions of potential viewers are you then a public figure. I would hope that most would say this does not constitute de facto enrolment into such a class, but are the definitions clear enough. According to attorney Aaron Larson: A person can become an "involuntary public figure” as the result of publicity, even though that person did not want or invite the public attention. For example, people accused of high profile crimes may be unable to pursue actions for defamation even after their innocence is established…

    To protect the affluent as well as the masses is important. To level the playing field perhaps the reporter who has invaded ones privacy, should he be found in violation by a court, be compelled to not only pay the court costs of his victim but pay a preset fine for each occurrence. This may well be deterrent enough to cause the privacy invader to think twice before publishing their findings to the world.

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی