ترکی کے خیالات و تخلیقی کاوشات کو کس طرح اولمپکس کے دوران سنسر کیا گیا

ترکی کے ایک قومی ٹی وی چینل نے ٢٠١٢ لندن اولمپکس کی حتمی تقریب کے دروان جان لینن کا گانا ‘امیجن’ سنسر کر دیا. آزادی اظہار راۓ پراجکٹ کی ٹیم ممبر فنڈا اسٹک ترکی کی اپنے شہریوں کے ایک بغیر مذہب کی دنیا کے بارے میں خیالات روکنے کے سلسلے میں اقدامات کے اوپر روشنی ڈالتی ہیں.

١٢ اگست ٢٠١٢ کو ساری دنیا ٢٠١٢ کے لندن اولمپکس کی حتمی تقریب دیکھتے ہوئے جان لینن کے گانے ‘امیجن’ کی ریکارڈنگ سن رہی تھی. ہو سکتا ہے کے اس وقت پوری دنیا ایک ایسے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی ہو جس میں نہ کوئی ملک ہوں، نا ملکیت و جائیداد، نا بھوک و افلاس اور (ہو سکتا ہے کہ) نا کوئی مذہب. یعنی کے پوری دنیا باسواۓ ترکی. ترکی کے ایک قومی ٹی وی (ٹی آر ٹی) کے پریزنٹر نے جان لیینن کے گانے کے آن ایئر ہونے کے دوران تمام شعروں کا درست ترجمہ کیا سواۓ ‘اور کوئی مذہب بھی نہیں’ کے. جن ناظرین کو زبان نہیں سمجھ آتی یا جن کو گانے کے اصل بول نہیں پتا تھے پریزنٹر نے موثرا ان کی ایک بغیر مذہب کی دنیا کو تصور کرنے سے روک لیا.

ہم معصوما یہ کہہ سکتے ہیں کہ پریزنٹر کو پوری طرح گانے کے بول سمجھ نہیں ارے اور اس لئے وہ اس فقرے کو صحیح سے ترجمہ نہیں کر پایا. لیکن میں اپنے تجربے سے کہہ سکتی ہوں کہ یہ ایک غلطی نہیں تھی. اس کے باوجود سنسرشپ کا ایک مجموعی جائزہ لئے بغیر اس واقعہ کی ساری غلطی پریزینٹر کے کندھوں پر ڈالنا بھی ناانصافی ہو گی.

ٹی آر ٹی کا ترکی کی حکومت کے نقطہٴ نظر کو پیش کرنا اور اس کے مطابق چلنا سب کو عام معلوم ہے. ٢٠٠٢ سے ‘معتدل اسلامسٹ‘ پارٹے اے کے پی کے اقتدار میں ہونے سے ٹی آر ٹی کے پروگرام مذہبی معاملات میں اور زیادہ حساس ہو گئے ہیں. آخر کار کچھ ہی مہینے پہلے وزیر اعزم اردوگان نے اپنی حکومت کی ایک ‘مذہبی نوجوان نسل کو بڑا کرنے’ کی خواہش کا اظہار کیا تھا. اور یہ قطع ایک تعجب کی بات نہیں تھی جب ترکی کے سب سے پسندیدہ کارٹون کرداروں نے پہلے سے بھی زیادہ مذہبی پیغامات دینا شروع کر دئے؛ مرکزی کردار پیپے نے تو اسلامی وضو اور نماز کے طریقے بھی سیکھنا شروع کر دیے.

ٹی آر ٹی ایسے معاملات پر جو حکومت کے مینسٹریم نقطہٴ نظر کو چیلنج کریں پر خفیہ سنسرشپ کی وجہ سے بھی مشہور ہے. اگر آپ ‘ٹی آر ٹی سانسورلیڈی’ (جس کا مطلب ‘ٹی آر ٹی سنسرشپ’ ہے) پر ایک آن لائن سرچ کریں تو آپ کو ٨٥٠٠٠ سے زائد نتائج ملیں گے جو کہ ایک موضوعات کی ایک وسیع رینج پر مشتمل ہیں: ان میں فوجی تنازعات سے لے کر حکومت کی سماجی اور معاشی پالیسیوں پر تنقید، ایک پرانی ترکش فلم کے کچھ حصّے سنسر کرنا اور فحش سمجھے جانے والے گانے شامل ہیں. براڈکاسٹنگ کا ایک تنقیدی اور اعتدال پسند معیار رکھنے اور ہر چیز جو حکومت کو پسند نا آئے اس کو ‘فحش، ہتک آمیز، اور روایات و استعمال کے خلاف’ قرار دے دینے میں ایک بہت ہلکی لائن ہے. یہ کہے بغیر جاتا ہے کے پہلے والا آزادی اظہار کے لئے ایک پلیٹفارم تیار کرتا ہے جب کہ دوسرا اس کو تباہ کرتا ہے.

پچھلے دس سال میں ترکی کی رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز کی پریس کی آزادی کی فہرست میں پوزیشن ٥٠ جگہہ نیچے گری ہے (٢٠٠٢ میں ٩٩ پوزیشن سے ٢٠١٢ میں ١٤٨ پوزیشن). ہم نے طالبعلموں کی ایک بہت بڑی تعداد (اگست ٢٠١٢ تک ٢٨٢٤) اور صحافیوں کی نامعلوم تعداد کو مختلف الزامات کے تحت جیل میں بند دیکھا ہے. اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہن صحافیوں نے حکومت کے خلاف آواز یا قلم اٹھایا ان کو کھلے عام نوکری سے نکال دیا گیا، چپ رہنے کو کہا گیا اور ان کے آرٹیکل یا پروگرام نشر ہونے سے روک دیے گئے.

یہ سیاق و سباق ذہین میں رکھتے ہوئے ٹی آر ٹی کے پریزینٹر کا جان لیینن کے گانے کو سنسر کرنے کا اقدام آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے. ہو سکتا ہے کہ اس کو جیل میں ڈالے جانے کا خوف ہو، یا اپنی نوکری سے نکال دیے جانے یا پھر صرف حکومت کی ناراضگی مول لینے کا.

اور یہ کہانی صرف ایک حصّہ ہے. اولمپکس کی ترجمانی پورے طور پر ہونی چاہئے اور اس میں اولمپکس کے بارے میں عوام کی راۓ ایک اہم کردار ادا کرتی ہے. جب ایک مذہبی رجحان رکھنے والے اخبار نے خاتون کھلاریوں کے کندھوں کو جزوی طور پر اس لئے چھپایا گیا کہ ان کا لباس اسلامی ڈریس کوڈ کے خلاف تھا، زیادہ تر میڈیا اس معاملے میں خاموش رہا اور انٹرنیٹ فورمز پر بھی اس بارے میں بات چیت نہیں ہوئی. بعد میں جو بات چیت اور بھس ہوئی وہ اس بارے میں تھی کے عورتوں کو ترک رسم و رواج اور اسلام کے مطابق کس طرح کے کوڑے پہننے چاہئے (اور صرف کے عورتیں کس طرح کے کپڑے پہنیں، مرد نہیں). آپ مریم اومیدی کی پہننے اور نہ پہننے کے بارے میں بلاگ پوسٹ ادھر دیکھ سکتے ہیں.

ہلانکے ان فورمز پر سیکولر حلقوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن ان میں دو اہم نقاط تھے جن کی وجہ سے لوگ اس کا مقصد نہیں سمجھ پاۓ. ایک وہ جو اس خیال کے حامی تھی ترکی کے کھلاریوں کو ولمکس کے دوران اسلامی رسم و رواج کے مطابق کپڑے پہننے چاہئے؛ اور دوسرا وہ جو ترکی کے ایک سیکولر ملک ہونے کی وجہ سے اس خیال کو مسترد کر رہی تھی وہ اس بارے میں اپنی الگ راۓ دے رہے تھے. سیکولر لوگ خاص طور پر مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں کے اس معاملے میں خیالات کو شیئر اور اس پر تبصرہ کر رہے تھے لیکن یہ ان کو براہ راست جواب دے کر ایک آزادی اظہار کا پلیٹفارم نہیں بنا رہے تھے. ایسی مباحث میں یہ بات کبھی نہیں اٹھی کہ کے کیا اخبار کو کھلاریوں کے کاندھوں کو چھپانے کا حق حاصل تھا. میرے خیال یہ ہمیں بتاتا ہے کے ترکی میں سنسرشپ بغیر کسی تنازعہ کے کیسے لاگو ہو جاتی ہے. جب لوگ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے تو سنسرشپ اور زیادہ سنسرشپ کو جنم دیتی ہے.

مذہب ایک حسّاس معاملہ ہے اور مذہب کے بغیر دنیا کا تصور کرنا متنازع ہو سکتا ہے. کسی گانے کے کچھ بول سنسر کرنا ایسے تو چھوٹی بات لگتی ہے لیکن اگر ہم اس سنسرشپ کے پس منظر پر نظر داکیں تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ضروری ہے جو یقین نہیں رکھتے، جو اسلامی رسم و رواج کو عام لوگوں سے الگ طریقے سے سمجھتے ہیں یا جو ایک مذہب کے بغیر دنیا کا تصور کرنا چاہتے ہیں.

مزید پڑھئے:

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی