گولی چلانے کا استحقاق مگر کس کو؟ 

سارہ گلیٹ ٹریگر انتباہ کے متعلق تنازعہ کا جائزہ لیتی ہیں اور سوال اٹھاتی ہیں کہ کیا ٹریگر انتباہ آزادئ اظہارِ رائے کو فروغ دیتے ہیں یا اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔

بے چینی، ڈراؤنے خواب، اور شدید جسمانی ردِعمل پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس بیماری (PTSD)کی چند علامات میں سے ہیں۔خواتین میں(PTSD) کی سب سے عام وجہ جنسی تشدد ہے۔ متا ثرین کے لیے زیادتی کی یاد دہانی تکلیف دہ یادوں کو واپس لاتی ہے۔اس تناظر میں ٹریگر انتباہات آن لائن آرٹیکلز کے ابتدائیوں میں مختصر نوٹس کی شکل میں شائع کیے جاتے ہیں۔ تا کہ ممکنہ خاکوں ،زبان کی نشاندہی کی جا سکے جو پر تشدد یادوں کو واپس لا سکتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹریگر انتباہات سب سے پہلے انٹر نیٹ سپورٹ فورمز اور خواتین کے حقوق سے متعلق بلاگز میں منظرِعام پر آئے۔ اس تناظر میں یہ خیالات اور تجربات کی بے لاگ ترسیل کو سہولت دینے کا ذریعہ سمجھے گئے اور جنسی تشدد یاPTSDکا شکار لوگوں میں آزادئ اظہارِرائے کو فروغ دینے کے لیے ایک اچھا قدم ۔لہٰذا یہ معاملہ غیر متنازعہ لگتا ہے۔قارئین کو ایسے مواد کے بارے انتباہ کرنے میں کیا نقصان ہو سکتا ہے جو کہ ان کے لیے باعثِ پریشانی ہو؟

لیکن ، ۲۰۱۴ میں ٹریگر انتباہ نے امریکہ میں قومی توجہ حاصل کی جب یہ خوف پیدا ہوا کہ اس قسم کے انتباہ آزادئ اظہارِرائے کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ ملک بھر میں طلباء نے منظم مطالبات شروع کر دئیے کہ ٹریگر انتباہ تعلیمی کورسز اور لیکچرزمیں بھی شائع ہونے چاہیں۔ با اثراخبارات جیسا کہ نیو یارک ٹائمز اور نیو یارکر نے بھی فوراً اس مسئلے پر روشنی ڈالی۔ ٹریگر انتباہ سے متعلق بڑھتے ہوئے مطالبات اور بحث و مباحثے نے اس تصور کے کیفیتی پھیلاؤ کوفروغ دیا۔ اگرچہ بنیادی طور پر ٹریگر انتباہ جنسی تشدد یا زیادتی سے متعلق مواد کے بارے ہی ہوتے ہیں مگر کچھ (جیسا کہ اوہایو اوبرلین کے طلبہ) نے ٹریگر انتباہ کو وسیع تر موضوعات جیسا کہ’استحقاق اور صبر‘ جس میں ’عصبیت، کلاسزم، سیکسزم، ہیٹرو سیکسزم، سِسیکسزم، ایبل ازم(۔۔۔۔) نوآبادیاتی خیالات اور مذہبی ظلم و ستم کے لیے استعمال کرنے کے لیے زور دیا ہے۔

آزادئ اظہارِ رائے کے کئی حامیوں کے لیے یہ نئی بات باعثِ فکر ہے۔ یہ دلیل دی گئی ہے کہ ٹریگر انتباہ کا وسیع تر استعمال لوگوں کو خاص اقسام کی گفتگو سے واضح طور پر روک سکتا ہے۔ اور پس آن لائن اور جامعات میں پیش کی جانے والی مختلف آراء سے استفادہ حاصل کرنے کی صلاحیت کو کم کرسکتاہے۔یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کیا ایسے خدشات ثابت ہونے کے قابل ہیں۔ ٹریگر انتباہ کے حامیوں کے لیے یہ خوراک پر لیبل لگانے یا فلموں کی درجہ بندی کے برابر ہے۔ کیونکہ یہ قارئین کو اس مواد کی موزونیت کو جانچنے میں مدد کے لیے معلومات فراہم کرتی ہیں جس سے ان کا واسطہ پڑنے والاہوتا ہے۔ ٹریگر انتباہات کے گرد ہونے والے مباحثوں کا ایک مثبت ردِعمل یہ بھی ہے کہ انہوں نے عوامی گفتگو میں غیراہم گروہوں اور جنسی تشدد کے متاثرین کی وسیع تر قدرافزائی کرنے میں بھی مدد کی ہے۔ ہمارا آزادئ اظہارِرائے کے منصوبے کا بنیادی اصول اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ اپنی سوچ کو آزادی سے بیان کرنے کی قابلیت معاشرتی طاقت کے ساتھ مدغم ہے۔مختلف گروہوں کے وسیع تر شعور اور ہمدلی کی جدوجہد کو بالآخر آزادئ اظہارِرا ئے کے اصول کو تقویت دینی چاہیے۔

تاہم جینی جاروی نیو ری پبلک میں دلیل دیتی ہے۔’خیالات کے ساتھ واسطہ خطرے کو دعوت دیتا ہے۔ اور صرف ان پر انتباہات تھوپنا عقلی تلاش کے اصول کو دھچکا دینے کے مترادف ہے۔‘ علاوہ ازیں، اگرچہ ٹریگر انتباہات ایسے لوگوں کے لیے مفید ہیں جو اپنے تےءں غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ یہ مختلف گروہوں کے درمیان جو کہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی’ مخصوص سیاسی نوعیت کی حامل حساسیات‘ کو امکانی ٹریگرزکے طور پر پہچانناچاہےئے، ایک’ ہتھیاروں کی دوڑ‘ کو جنم دے سکتی ہے۔طبی تناظر میں، لفظوں ،شبیہات یا مہک اور آوازوں کی بھی فہرست جو کہ اضطرابی بیماری کے حملہ جات کا محرک ہے اتنی مختلف ہے جتنا کہ ایسے واقعات جو کہ PTSD کا باعث بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک تبصرہ نگار نے کہا، ’ ایک دفعہ ہم امکانی صدمہ کی بنیاد پر انتباہات تھوپنا شروع کر دیں تو ہم کہاں جا کر رکتے ہیں(۔۔۔۔)انتباہات کے استعمال کی معقول بنیاد نہیں ہے۔ کیونکہ الفاظ کے امکانی نقصان کا کوئی مادی پیمانہ موجود نہ ہے۔‘

ٹریگر انتباہات کے گرد ہونے والی حالیہ بحث کے بارے جو چیز مجھے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ بڑی تعداد میں امکانی ٹریگرز کو پہچاننے کی طلب نہیں ہے۔ بلکہ مختلف اقسام کے مواد پر انتباہات نافذ کرنے کی مانگ ہے۔ایک بات یہ ہے کہ مخصوص گروہوں کونقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے اطلاع مہیا کرنے کا انتخاب کیا جائے لیکن یہ الگ بات ہے کہ ایسا کرنا فرض ہو۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں ٹریگر انتباہات کے استعمال کے کسی سائنسی جواز کی کمی ہو یا ان کی درجہ بندی کا مادی طریقہ کار موجود نہ ہو۔ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم ناخوش نہ ہوں نہ ہی یہ حق حاصل ہے کہ اس مواد کا سامنا نہ کریں جو باعثِ تکلیف ہو۔ غیر رسمی طور پر استعمال کیا جائے تو ٹریگر انتباہات آن لائن فورمز کے لیے یا ’ڈیڈیکیٹڈ تھیراپیوٹک سپیسز‘’dedicated therapeutic spaces‘کے لیے ایک قابلِ قدر آلہ ہیں۔ تاہم عوامی حلقہ میں نافذ کیے جانے والے ضوابط کے امکانی سرد اثرات ان کے فوائد کے مقابلے میں زیادہ بھاری ہیں۔

سارہ گلیٹFree Speech Debate کی ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں۔

مزید پڑھئے:

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی