غزہ کے بارے میں لا علمی : مغربی میڈیا اور عرب اسرائیلی تنازعہ 

جان لائیڈ کا غزہ میں مغربی صحافتی تاریخ اور اس میں موجود خامیوں کا تجر بہ اور اسے بہتر بنانے کے لیے واحد حل کا مشورہ۔

اسرائیل کے بارے میں لکھنا یا خبر نشر کرنا تنازعہ کو دعوت دینے سے مترادف ہے۔ ستمبر 2014 میں میں نے BBC ریڈیو پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل مغربی ذرائع ابلاغ میں کوریج پروگرام کیا جو کچھ لوگوں نے پسند کیا ۔ اور کچھ لوگوں نے نا پسند کیا ۔ نا پسند کرنے والوں میں سے اکثریت یہودی تارکین وطن کی تھی ۔
اسرائیلی اور یہودی تارکین وطن سول سوسائٹی دنیا بھر میں سب سے زیادہ با اثر اور با آواز ہیں BBC کے مڈل ایسٹ ایڈیٹر جیری براؤن کے مطابق اس پروگرام کے متعلق 99%شکایت کر نے والے یہودی تھے ۔ ایک نایاب شکایت یاسر عرفات کے دفتر سے بھی تھی جو کہ عدالتی کاروئی کی دھمکی تھی جو کہ پوری نہیں ہوئی ۔ یہود ، دشمن کہلانانا خوشگوار لگتا ہے۔ "ایک نا معلوم نما ئندے نے لکھا کہ ” جان لائیڈصرف اسرئیل بلکہ یہودیوں کے خلاف اتنا متعصب ہے کہ اسے زایو نزم (anit-zionism)مخالف کی جگہ یہود مخالف کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ عربوں کے تشدد کے جواز پیش کرتا ہے یہ نا خوشگواری یوں بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ میرا بیٹا خود کو فخر سے یہودی کہتا ہے کیونکہ اسکی ماں یہودی ہے اور مجھے خوسی ہے کہ وہ خود کو یہودی سمجھتا ہے ۔ چونکہ تارکین وطن اسرئیل میں دلچسپی رکھتے ہیں اس لیے ان کی جذباتی عدم برداشت نا گزیر ہے۔
عرب معاشرے میں جہاں اب بھی ذرائع ابلاغ شہ پر ریاستی اثر ہیں تبدیلی آرہی ہے اور معاشرے میں بحث ہو رہی ہے ۔ تھا مس فرائڈ نے نیو پارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے نئے آرٹیکل میں ۔ اس میں بنان ناؤ ویب سائٹ پر ایک لبنانی شید مصنف حسنین عزیز کے شائع شدہ مضمون کا حوالہ دیا ۔ جو لکھتے ہیں کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اور ہمارا تعلیمی نظام اس بلا کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں سے ہم سب نے تخلیق کیا ۔ ہمیں اپنی اگلی نسل کو یہ سکھا نا ہوگا کہ وہ ہماری غلطیوں سے سیکھیں اور انہیں نہ دھرائیں نہ کہ ہماری طرح فنِ انکار میں مہارت حاصل کریں ۔ جب ہمارے معلم اور صحافی انفرادی حقوق کی اہمیت کو سمجھیں گے اور یہ مان لیں گے کہ ہم شہری بننے میں شایدنا کام ہو گئے ہیں صرف اس وقت ہم آزادی کی امید کر سکتے ہیں اگر چہ وہ ہمیں رفتہ رفتہ ہی ملے ۔ مغربی ذرائع بلاغ کی اسرئیل پر کوریج کے متعلق مختلف رائے اس بحث کا متنا زعہ ہو نے کی دلیل ہیں ۔ اسرائیل کے کردار پر شدید تنقید کرنے والے جن میں سے اکثر کو رائے خود کو یہود۔ مخالف کہہ کر نا اہل نہیں سمجھنا چاہیے ۔ اور ان میں کچھ یہودی بھی شامل ہیں سمجھتے ہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی اسرائیل پر کوریج نمایاں طور پر ہمیں نادار اور پرستش سے ایسی خالات میں یہود مخالف جو کہ ایک اقلیت میں ہیں یہ کہنا انتعارہ شمال کرنا پسند کرتے ہیں کہ دنیا کہ ذرائع ابلاغ یہود کے ذیرِ اثر ہیں عام طور پر جمہوری بائیں بازو کے تعلق رکھنے والے مختلف سطح پر اسرائیل پر تنقید کر تے ہیں جبکہ جمہوری دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیل سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔
مثال کے طور پر جرمنی کا سب سے طاقتور ذرائع ابلاغ کا گروپ سپرنگروکہ جرمنی کا سب سے مقبول اخبار بیلڈ (Bild) شائع کرتا ہے نے حلفی جملہ میں اسرائیل کی حمایت کو شامل رکھتا ہے جس پر سب صحافیوں کو حلف لینا ہوتا ہے سپر لگر گروپ کے پانچ صحافتی اصولوں میں سے دوسرا یہودیوں اور جرمنوں کے درمیان تعفیہ کرانا اور اسرائیلی عوام کے حقوق کا تخفظ ہے۔
اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوراً بعد غیر محسوس طریقے سے یہ معکوس رویہ اپنا یا گیا 1950 سے 1970 کی دیائیوں کے درمیان بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد اسرائیل و سوشلسٹ معاشرہ تصور کرتے رہے جو کہ اشتراکیت کے ذریعے چل رہا تھا اور بہو تزم (Kibbutzim) کا مساواتی نظام معاشرے کی معیشی اکائی تھا اور ایک شلٹ لیبر پارٹی کے زیر اقتدار دائیں بازو کے ستاٹو ہونے والے _____ سفید سے بھر پور تھے اور
میدان جنگ ، کم از کم یوکے میں ۔ذرائع ابلاغ اور تشیر میں حکومتی براڈکاسٹر BBC بن جاتا ہے۔BBC کی غزہ کے جنگی تنازع کوریج کو غور سے دیکھا گیا اور شدید تنقید کا نشانہ بنا یا گیا حصوصاً ___ وطن کی طرف سے ۔اس کی وجوبات کو سمجھنا ضروری ہے۔
یہ ایک پیغام ہے ،مارشل مکسلوین کا مشہور قول جس کی لف طریقے سے تشریح کی گئی ۔ میں اسکی تشریح ٹیلی ویژن کی طارہ دکھانے کی طاقت کے ذریعے کرنا چاہوں گا ٹیلی ویژن پر نشرہونے والی تصاویر نا ظرین کے دماغ میں نقش ہوتی ہیں جبکہ اخباراتی مضامین قارئین کو آزادی دیتے ہیں کہ اپنی مرضی کی تصاویر بنائیں۔
جی سی کی کوریج دوسرے بصری ذارئع ابلاغ (Visual media) کی طرح غزہ میں رہنے والوں اور زخمیوں ۔ خصوصاً عورتوں سے متعلق خبریں نشر کرتا رہا ۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں مرنے والے 2000 سے بھی زیادہ تھے ۔ چونکہ اسرائیلی اموات جو کہ 70 سے بھی کم تھیں (مرنے والوں اکثر اسرائیلی ڈفینس فورس (IDF) سے تعلق رکھتے تھے)لہذا بات میں غیر توازن صاف ظاہر تھا۔
اسرائیلی اور قارئین وطن کی شکایات اس رائے پر تھیں کی حماس ہمر تنظیم ہے جو کہ تشدد کے ذریعے اطاعت حاصل کرتی ہے ۔اگرچہ 20 کاقتل جو کہ اسرائیلی جاسوس بتائے جاتے تھے ثابت ہو چکا ہے لیکن مخالف مظاہرین کا قتل کا دعویٰ کا ثبوت ملنا مشکل ہے اور اسی طرح گھروں کو جنھیں اسرائیلیوں نے جنگ کے میدان کا حصہ بتایا وہاں رہائیشوں کے ذریعے گھروں میں رکھنے کے ثبوت ملنا بھی مشکل ہیں ۔ کرفیو ۔ میرے خیال میں BBC کے اخباری بلینٹن نے اس تنازے کے متعلق اس زرائع کو مستحکم کیا مگر اس قسم اکا دکا کی رائے ظہار کسی قسم کا ثبوت نہیں ہوتی ۔
میری BBC کے پروگرام کے لیے
BBC کے لیے میرا یہ پروگرام اری شاوت جوکہ اسرائیلی ترقی پسند اخبار ہاری ٹز کے مصر ہیں کی کتاب تیسرا وعدہ شدہ وطن سے متاثر ہیں بنایا گیا تھا ۔ یہ پروگرام دو المیوں کر ذکر کراتا ہے ۔ اول اور شاید (عظیم تر ) ۔ ہو لو کا سٹ اور بچے کچے یورپی یہودیوں کے لیے ایک تخفظ کے قابل وطن کر بنانا اور دوسرا 700,000فلسطینیوں کو 1950سے 1990 کے درمیان یہودیوں کی آمد پر دربدر کرنا جسے یہودی نقیہ کہتے ہیں ۔
یہ دو بڑے واقعات یہودی اور اسرائیلی تنازے کے مختلف بیانات کو ظاہر کرتے ہیں ۔ دونوں ذرائع ابلاغ کو ریج کے حقدار ہیں تا کہ ان کی موجودہ کہانیوں کا پش منظر سمجھا جائے اخبارات اور اشاعت کے علاوہ ایسا شازونادرہی ہوتا ہے۔ بہت سے صحافی اس کام میں بے بسی ظاہر کرتے ہیں ۔ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا اور سمجھتا ہوں کہ کچھ شکایات کو حل کیا جا سکتا ہیت اگر سمجھ لیا جائے کہ بلد سیاق وسباق خبریں حقائق کو مسخ کرتی ہیں ۔ اگرچہ ستر سالہ تاریخ کو مسیح طور پر روزانہ کی خبروں میں شامل کر نا مشکل ہے مگر یہ ایک صحافتی زمہ داری ہے کہ کوشش جاری رکھی جائے ۔

(جان لائیڈ رائٹرز ائسوٹ برائے صحافتی تعلیم آکسفورڈ مین سینئر ریسرچ فیلو ہیں اورفنانشل ٹائمزمیں مد یر ہیں )

مزید پڑھئے:


تبصرے (3)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. The job of a journalist is to report pure unadulterated facts. They don’t have the luxury to show partisan. However, journalists and news papers/channels by the extension are becoming more and more biased in their reporting (some news channels are even accused of being party to propaganda). The reports concerning Israel is one such example. Many media houses are extremely biased while reporting issues related to Israel, in-fact, even going to the extent of not reporting some incidents. This trend doesn’t bode well for the credibility of media and is contradictory to the ethos of this profession. It won’t be an exaggeration to state that if things are not rectified, media might loose its role as the reformer of the society.

    • En lisant le commentaire de Mujahid, je me suis demandée si dans le fond il était véritablement possible pour un journaliste de ne pas prendre parti. L’on ne peut réellement attendre d’un journaliste qu’il rapporte tous les faits, ni même tous les faits dont il est témoin; une sélection se fait forcément dans le choix du sujet et ensuite dans ce qui doit être mis sur papier. Ce choix en lui-même est déjà un parti pris. Par conséquent, ne faudrait-il par encourager, non pas un journalisme pur et complètement objectif (car celui-ci semble impossible), mais plus de journalisme pour que la pluralité des visions finissent par donner une image moins floue, comme l’effet obtenu par les points des tableaux de Seurat ou les pixels d’une photo…?

  2. I am a right wing extremist in New York City and a Jewish nationalist, whatever that means (Zionist mostly but there are many Zionisms)

    I respond to the brief description of the reportage of the recent Gazan war, of disproportionate casualties, 2000 dead in Gaza 70 dead in israel, therefore israel is wrong?

    Not here, I explain why.

    Gazans went to war without bomb shelters Israelis had bomb shelters, these Gazan dead are on Gazan heads

    Gazans were warned of individually and specific bomb attacks and did not evacuate; we are told that Gazan police prevented such evacuations, preferring photo ops of dead Gazan kids, these dead are on Gazan heads

    There is no dispute that Gazan fighters militarized civilian areas, which is a war crime (as well as indiscriminate attacks on Israeli civilian areas, also a war crime) , thus making their own civilians human hostages, make their own human shields, thus these dead are on Gazan heads

    Gazans send 10,000 rockets and act surprised when they are attacked in response and with no war preparations- thus these dead are in Gazan heads

    Gazans, and the larger Arab community, lost sovereignty in 1917 when the British conquered this outpost of the Ottoman empire, although it had long had de facto autonomy, from the 19th century, – and thereby became part of the new British empire – but this ownership by conquest is not new, Islam and Araby came to ownership by conquest, from the Persians before, and the Romans before that, and from the Jews before that

    Right of Conquest

    From 1917 on, the area’s outcome was to be an international decision, and in 1947 the UN voted partition, the Arabs and the Gazan and the Pals (who were not yet Pals, those days ‘Palestinians’ were pre-Israel Jews ) all had a major piece of the partition, the Jews who soon became Israelis, had two preposterous Cantons or Bantustans, and the Arabs said No Way and promised war in 1947 and brought war, or continued it ongoing since the 1920s, and have not stopped one day since

    In real estate, remember ‘ 100% of nothing is nothing’ – not very good bargainers we see

    So these dead are on them

    So these dead are on them for not making peace, not accepting the UN vote – and as a result they are both war criminals and international outlaws and deserve no sympathy as these dead are all self-created hardships,

    Arabs are wretched but blessed of God that they fight Jews , were they to fight other Arabs the body count would be not 2,000, but in the 100,000s as we see in Syria and Iraq and where Green kills Green, video beheadings, women sexually enslaved, proudly so in social media , over who is Mohamed’s heir, or geography or tribalism, or just plain booty loot – think back to Iran v Iraq and 2m dead or more

    Pals should thank their many gods that they fight Jews not each other

    When we get really really mad at them we will airdrop them into Iraq or Syria or Yemen and they can embrace each other, 100,000s dead, or beg us to let them come back and fight Jews

    And you know, we will let them, because we are neither Arabs nor Muslims, we fight to defend ourselves and stop 10,000 rockets, not to impose one sharia over another as they fight each other

    I hope this helps

    As for Jews, and even Israelis, who take a position that the Gazan war was wrong, well Israel is a pluralistic society where dissent has a voice; in Araby were the Arab war of 10,000 rockets to be criticized, the result is execution, one more reason why our side is morally superior than the Arab side

    Gazan have taken 2,000 dead about 1/1000, 20,000 wounded about 1/100 and 100,000s internally displaced, 10% of structures destroyed

    How many more have to be war victims before they make peace? all of them? My side hopes not. There is enough room for all sides

    Back to bomb shelters, Gazan clearly know how to dig, they dig attack tunnels, so leaving their civilians exposed and vulnerable is even more egregious, national suicide as policy the suicide bomber as national symbol and cultural icon and core DNA value

    Ad they are back at it again, soonish

    "Lather rinse repeat” (an American expression for do the same thing over and over and get the same result)

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی