بی بی سی کی عرب سپرنگ کی کوریج کتنی غیر جانبدرانہ تھی؟

اقوام متحدہ کے مواصلاتی ڈائیرکٹر ایڈورڈ مورٹیمر کی طرف سے شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کہتی ہے کے بی بی سی کی عرب سپنگ کی کوریج ‘مناسب حد تک غیر جانبدرانہ’ تھی.

بی بی سی کا حکومتی ادارہ بی بی سی ٹرسٹ اپنی ویب سائٹ پر کہتا ہے ‘بی بی سی کا مقصد عوام کی خدمت ہے اور اس کا مشن آگاہ کرنا، تعلیم دینا اور محظوظ کرنا ہے ….. اور ہم اس مشن پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہتے ہیں.’ اس کو کرنے کا ایک طریقہ وہ نظر ثانی گئی جو کہ ہر سال بی بی سی کی خبر اور حالات حاضرہ کے کوریج کی غیر جانباری اور درستگی پر کیا جاتا ہے. اس معاملے میں ہر سال ایک مختلف موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ٢٠١١ کا موضوع ‘وہ واقعات تھے جن کو ‘عرب سپرنگ’ کے نام سے پہچانا جاتا ہے’ اور اس نظر ثانی کے تحت مجھ سے بھی ایک ‘آزادانہ جائزہ’ لینے کی درخواست کی گئی.

اس سیاق و سباق میں غیر جانداری کا کن معیارات کے تحت فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا ہمیں غیر جانبداری کا درست مطلب بھی پتا ہے؟ یہ اتنا آسان تو نہیں ہو سکتا کہ دونوں فریقوں کو برابر وقت دیا جاۓ کیوں کے معاملات میں دو سے کہیں زیادہ فریقین شامل ہیں. بی بی سی کی ایڈیٹوریل ہدایات صاف صاف کہتی ہیں کہ غیر جانبداری کا ‘تقاضہ یہ نہیں کہ ہر معاملے میں مکمل جانبداری ہو یا بنیادی جمہوری اصولوں کے ماورا کام کیا جاۓ’. کیا اس کا مطلب یہ ہے کے بی بی سی کو بغیر کسی جھجھک کے ان کا نقطہٴ نظر پیش کر دینا چاہئے جو جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے کا دعوی کرتے ہیں؟ اچھی بات یہ ہے کہ بی بی سی اس کو اس طرح نہیں دیکھتا. زیادہ سے زیادہ یہ اپنے جمہوری اصولوں سے ایک سرسری سی منسلکی ضرور رکھتے ہیں – ‘ہم کسی ظالم سے یہ نہیں پوچھتے کے وہ اور زیادہ ظالم کو نہیں’ – لیکن عام طور پر یہ تمام سیاسی کرداروں کی برابر جانچ پڑتال کرتے ہیں، بشمول ان کے جو جمہوریت کو فروغج دینے کا دعوی کرتے ہیں.

ہدایات میں غیر جانبداری کا ایک اصول یہ ہے کہ ‘ہم موضوعات اور نقطہء نظر کی وسیع رینج کو اپنی کوریج میں وقت فراہم کرتے ہیں’. میں نے اس کا مطلب یہ لیا کے غیر جانبداری کا فیصلہ کرنے میں مجھے صرف مختلف راۓ اور نقطہء نظر کی کوریج ہی کو نہیں بلکے یہ بی دیکھنا چاہئے کہ کیا ایک خبر کے مختلف پہلوؤں پر مناسب روشنی ڈالی گئی ہے کہ نہیں.

میرا وسیع تر نتیجہ یہ تھا کہ عام طور پر بی بی سی کی کوریج مناسب حد تک غیر جانبدرانہ تھی لیکن کچھ جگہوں اس کی توجہ بہت زیادہ حد تک اس وقت کی ڈرامائی خانی پر تھی – ٢٥ جنوری سے ١١ فروری ٢٠١١ تک مصر پر، فروری سے لے کر اکتوبر تک لیبیا پر اور اس وقت سے لے زیادہ وقت تک اب شام پر. لیبیا پر شدید توجہ دینا اس وجہ سے قابل فہم اور کچھ حد تک منصفانہ بھی ہے کیوں کے ادھر کی لڑائی میں برطانیہ کا ایک کلیدی کردار تھا لیکن اس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں واقعات پر کافی کم توجہ رہی جیسے کہ بحرین، یمن، مصر بعد از مبارک، الجیریا، مراکش، اردن اور – سب سے سنجیدہ طور پر – سودی عرب (جو کہ کوریج کے لئے ایک مشکل ملک صحیح لیکن اس کا خطے میں اثر و رسوخ اور سٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے.

میڈیا کے نقطہء نظر سے ‘عرب س[سپرنگ’ کی سب سے منفرد بات یو جی سی (صارفین کی طرف سے پیدا ہونے وال مواد – جیسے کے غیر پیشورانہ صحافیوں کی بنائی شدہ وڈیو اور ریکارڈنگ) کی کسرت تھی، اور کے ساتھ ساتھ کئی ساری ضروری جگہوں پیشورانہ رپوٹروں اور کیمروں کی نا رسائی تھی. یو جی سی عام طور پر ایسے کارکنان اور عام شہریوں کی طرف سے پیش کیا گیا جن کو لڑائی کے نتیجے میں دلچسپی تھی اور اس لئے خبری ایجنسیوں کو اس مواد کو استعمال کرتے ہوئے احتیات برتنے کی ضرورت ہے تاکے غیر جانبداری اور حقائق پیش کرنے کے تقاضوں پر پورا اترا جا سکے.

مجموعی طور پر بی بی سی اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے مناسب طور پر تیّار تھا کیوں کے یہ اپنے عرب سروس اور بین الاقوامی خبروں کو مینیج کرنے والے ڈپارٹمنٹ کے تجربات کے زریعے مقامی معلومات اور سیاق و سباق حاصل کر سکتے تھے. ایک یو جی سی حب ‘عرب سپرنگ’ سے پہلے ہی بی بی سی کے نیوز روم میں قائم ہو چکا تھا جو وصول ہونے والے تمام تر مواد کی چھان بین اور اس کی حقیقت اور غیر جانبداری کا اندازا لگانے کا ذمہ دار تھا اس سے پہلے کہ یہ نشریات کے لیا چنا جاۓ. لفبورو یونورسٹی میں بی بی سی ٹرسٹ کے لئے مواد کے جائزہ کے مطابق کیسوں کے ایک اقلیتی گروپ میں نشریات کے دوران مواد کی توثیق میں پیش ہونے والی مشکلات کا ذکر کیا گیا.

میں نے بی بی سی کے سینئیر حکام سے پوچھا کے کیا ان وضاحتوں کی غیر موجودگی میں سامعین اور ناظرین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ پیش ہونے والے مواد کی بی بی سی نے مکمل طور پر توثیق کر لی ہے. مجھے جواب دیا گیا کہ ‘پالیسسی اتنی شفاف نہیں ہیں، لیکن شاید ہونی ضرور چاہئے.’ میری سمجھ بوجھ کے مطابق مستقبل میں ایسا ضرور ہو گا.

ایڈورڈ مورٹیمر نے برطانوی اخبارات کے لئے مشرق وسطیٰ کے بارے میں وسیع پیمانے پر لکھ رکھا ہے اور یہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے مواصلاتی ڈائیرکٹر کے طور پر بھی فرائض انجام دے چکے ہیں.’عرب سپرنگ’ کے حوالے سے بی بی سی کی کوریج کی غیر جانبداری اور حقیقت پسندی کے بارے میں ان کی رپورٹ جون ٢٥ کو شائع ہوئی اور ادھر دستیاب ہے.

مزید پڑھئے:

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی