جیف ہاورڈ لکھتے ہیں کہ وہ معاشرہ جہاں آزادئِ اظہارِ راۓ کمزور کو اختیار دینے کے بجاے تفریق کا باعث ہو – ایسا معاشرہ نہیں جہاں عالمی آزادئِ اظہارِ راۓ کے اخلاقی نقطہ نظر کو حقیقتاً پا لیا گیا ہے.
سیبسٹین ہیمفر ہمیں ایک غیر منصفانہ معاشرے میں آزادئِ اظہارِ راۓ کی جدوجہد کی اخلاقی حکمت پر نظر ثانی کی تلقین کرتا ہے. نظر ثانی کی یہ دعوت نہایت اھم ہے، اور اپنے اندر تکلیف دہ سچ سموۓ ہوئے ہے. ان میں عالمی پیمانے پر طاقت کی موجودہ نا مساوی تقسیم شامل ہے اور ان ذرائع کی جانب اشارہ ہے جن سے آزادئِ اظہارِ راۓ کی یہ جدوجہد اس تفریق کو مٹانے کے بجاۓ مزید فروغ دینے کا باعث بن سکتی ہے.
آزادئِ اظہارِ راۓ کی اس جدوجہد کا یہ منفی پہلو کس طرح ممکن ہے؟ سیبسٹین کا جواب نہایت سادہ اور قابل توجہ ہے. ایک ایسی دنیا جہاں چند آوازیں دوسری آوازوں سے زیادہ اونچی اور محفوظ ہیں – وہاں آزادئِ اظہارِ راۓ کی وکالت صرف انہی اونچی آوازوں کو مزید تقویت دے گی. طاقت کی نامساوی تقسیم پر توجہ دیے بغیر آزادئِ اظہارِ راۓ کی عظمت کا ڈنکا بجانا اپنے تئین ایسا ہی ہے جیسے اُس کی واہ واہ کرنا جس کے ہاتھ میں پہلے سے ہی مائکروفون موجود ہے. سیبسٹین کا یہ کہنا ہے کہ آزادئِ اظہارِ راۓ سے متعلق جس قسم کے اصولوں کو ہماری ویب سائٹ پر فروغ دیا جاتا ہے” وہ صرف ان کے لئے پرکشش ہیں جو طاقتور ہیں، اکثریت میں ہیں یا پہلے ہی سے مراعت یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں”. اس کی وجہہ یہ ہے کہ یہ اصول ان طبقات کی قوّت کو مزید ٹھوس اور مضبوط کرتے ہیں.
تاہم میرا یہ یقین ہے کہ اگر طاقتور صرف اس وجہہ سے آزادئِ اظہارِ راۓ کی طرف مائل ہے کہ اس کی غیرمنصفانہ مراعات مزید محفوظ رہیں تو اس سے صرف یہ انکشاف ہوتا ہے کے وہ دراصل آزادئِ اظہارِ راۓ کی قدر نہیں کرتا. یہ وہ اھم کلیہ ہے جس کے ذریعے ہم سیبسٹین کے خیالات کے صحیح اور غلط اطلاق میں تمیز کر سکتے ہیں. وہ معاشرہ جہاں آزادئِ اظہارِ راۓ کمزور کو اختیار دینے کے بجاۓ تفریق کا باعث ہو – ایسا معاشرہ نہیں جہاں عالمی آزادئِ اظہارِ راۓ کے اخلاقی نقطہ نظر کو حقیقتاً پا لیا گیا ہے. اگر ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ ایسا کیوں ہے تو پھر یہ صاف ظاہر ہو جاۓ گا کہ راہِ انصاف کا مطالبہ آزادئِ اظہار کی زیادتی ہے- نہ کہ آزادئِ اظہار کی کمی.
سب کے لیے آزادئِ اظہارِ راۓ
اظہار کی آزادی کے وکیل آخر کس کے لئے آزادی کے اظہار کی وکالت کرتے ہیں؟ اس سوال کے دو ممکنہ جوابات ہیں. ہم چند لوگوں کے لئے اظہار کی آزادی کی وکالت کریں یا ہم تمام لوگوں کے اظہار کی آزادی کی وکالت کریں. جدید لبرل منصوبہ واضح طور پر دوسرے جواب کا حامی ہے. آزادئِ اظہار کی وکالت کو مساوی آزادئِ اظہار کی وکالت سے مختلف قرار دینا – ایک بہت بڑی غلطی ہو گی. بادشاہ اور شہنشاہ صدیوں سے مکمّل طور پر آزادئِ اظہار سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار پوری آزادی سے کرتے رہے ہیں. اس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ روشن خیال لبرلزم کا اھم اضافہ آزادی کا تصّور نہیں بلکہ عالمی آزادی کا تصّور ہے – ایک ایسی آزادی جس سے ہر کوئی پوری طرح مستفید ہو سکے. اِبتدائی لبرل اپنے اِس نظریے کی تکمیل میں یقیناً ناکام رہے. نہ صرف عورتوں اور اقلیّتوں کو الگ کر کے بلکہ یہ نہ سمجھ کر کہ اس قسم کے شہری حقوق اُن کے لئے بےمعنی ہیں جو دو وقت کی روٹی یا سر چھُپانے کو چھت کی جدوجہد میں مصروف ہیں. اسی لئے عصر حاضر کے لبرل صرف آزادی کے رسمی قانونی تحفظ کی وکالت نہیں کرتے بلکہ صحیح معنوں میں اس آزادی کو استعمال کرنے کے حق کی بھی وکالت کرتے ہیں. ہمارا پہلا اصول انہی دو مقاصد کی ترجمانی کرتا ہے کہ ہم نہ صرف اظہار کے لئے آزاد ہوں – بلکہ اس اظہار کے قابل بھی ہوں.
اس نقطے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیبسٹین کی بحث کے ایک (کافی حد تک درست) حصّے کی معنی خیز تشریح ممکن ہے کہ آزادیِ اظہار کی بحث پر نامکمل ہونے کا الزام ممکن ہے – اور ابتدائی لبرل کی طرح ہم نے بھی اس الزام پر وہ توجہ نہیں دی جو ہمارے اصولوں کی کامل تاویل کے لئے ضروری ہے. یہ بات یقیناً درست ہے. آزادئِ اظہارِ راۓ کے معیار پر عالمی اتفاقِ راۓ کی وکالت ناکافی ہے. ہم پر پسماندگان کو بااختیار کرنے کی ٹھوس حکمتِ عملی کی وکالت بھی لازم ہے، جس میں اقلیّتوں کی عالمی اور نجّی سطح پر مساوی سلوک کو تسلیم کرنے کی وکالت، تاریخی طور پر پسماندہ افراد کے لئے بہتر تعلیم اور معلومات کی رسائی کا مطالبہ، تاریخی امتیازی سلوک کے ازالے کا مطالبہ – اور مزید مسائل شامل ہیں. اس سارے عمل کی اصل روح یہ ہے کہ مقتدر پسماندگان کے اس اخلاقی دعوٰی پر “سنجیدگی سے غور کریں، اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے بحث کے تمام پہلوؤں کو حقیقتاً کھُلے ذہن سے سُنیں”.
غور کیجیۓ کہ بااختیار بنانے کی یہ جرآت مندانہ حکمت عملی، جامع انصاف کے حصول سے کافی مماثلت رکھتی ہے. یہ بات ہمارے لئے حیران کُن نہیں ہونی چاہیۓ. کیونکہ آزادیِ اظہار کسی بھی منصفانہ معاشرے کا ایک جزو ہے، جو دیگر اجزاء کے ساتھ ملا ہوا ہے اور جس کا مکمل فائدہ دیگر آزادیوں اور مواقع کے جال سے متّصل ہے. عالمی آزادئِ اظہارِ راۓ کی دانشمندانہ وکالت وسیع تر لبرل سیاسی فلسفے کی وکالت کے بغیر ممکن نہیں. یہ بصیرت کچھ حد تک آزادی راۓ کی بحث میں شاملِ بھی ہے؛ مَثَلاً ٹموتھی گارٹن ایش یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ “رازداری آزادیِ اظہار کے لئے شرط ہے” . یہ رجحان بہرحال موجود ہے کے ایک خلاء میں آزادئِ اظہار کی حوصلہ افزآئی کی جاۓ، ہمیں اس رجحان کی مؤثّر مزاحمت کرنی چاہیۓ. حقیقی اختیار کے نظریے سے الگ ہو کر اظہار راۓ کا ڈنکا بجانا ایسا ہی ہے جیسا کہ کمزور اقلیّتوں کو عبادت گاہوں کی خطرناک راہ پر پولیس تحفّظ کے بغیر، مذہبی آزادی کا پرچار کرنا.
آزادئِ اظہار کی وکالت ایک منصفانہ دنیا کے حُصول کی جدوجہد کی وسیع تر حکمت عملی سے لازماً منسلک ہے – ایک ایسی دنیا جہاں ہر ایک محترم ہو، اور سب کو زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے مواقع اور آزادی میسّر ہو. اگر آپ مجھے ایک ایسا معاشرہ دکھاتے ہیں جہاں آزادئِ اظہار صرف طاقتور کے مفاد میں ہے تو میں آپ کو وہاں وہ معاشرہ دکھاؤں گا جو آزادی اظہار اور اس سے منسلک وسیع تر نقطۂِ نظر کے معیار پر پورا نہیں اترتا. سیبسٹین کے خیالات کا احترام اپنی جگہ، لیکن یہ کہنا کہ آزادی اظہار کی مناسب وکالت ایک غیرمنصفانہ نظام کے جمود کی وکالت کے مترادف ہے – معقول نہیں ہے.
کیا کمزور کی حفاظت کے لئے آزادئِ اظہار محدود ہونا چاہیے؟
سیبسٹین کی سوچ کے تسلسل سے بہرحال یہ جواب تجویز ہوتا ہے: کہ اگر ہم آزادئِ اظہار کے دفاع کو ایک وسیع تر لبرل پروگرام کا حصّہ بنا لیں، پھر بھی یہ عین مُمکن ہے کہ طاقتور اپنی مرضی سے صرف ان اصولوں کا چُناؤ کرے جو اس کے مفاد میں ہوں. اس حقیقت کے پیش نظر آزادئِ اظہار کی وکالت مزید جبر کا سبب بن سکتی ہے. لہٰذا جب ظلم کا سامنا ہو تو انصاف کی خاطر آزادیِ اظہار کو محدود ہونا چاہیۓ. جیسا کہ سیبسٹین نے کہا:” اگر ہمیں ملوم نہ ہوتا کہ ہماری آوازیں کتنی اونچی ہو جائیں گی، ہم سب کے لئے لامحدود آزادئ راۓ کا انتخاب نہ کرتے”.
تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس پوزیشن کو مسترد کرنا چاہیۓ اور یہ مقالہ سراسر غلط ہے.
سیبسٹین کی پوزیشن کے عملی مضمرات سے متعلق کم از کم دو تشریحیں ممکن ہیں، اور اخلاقی طور سے دونوں ہی عیب دار ہیں. پہلی صورت میں غیرمنصفانہ معاشرے میں حکومتوں کے لئے مکمل آزادئ کی گارنٹی نہ دینا صحیح ہو گا، بلکہ طاقتور کے آزادئِ اظہارِ راۓ کو اپنے مفاد میں استمال کرنے کے خطرے کے پیشِ نظر، آزادئِ اظہارِ راۓ کو محدود ہونا چاہیۓ. لیکن اکثر غیرمنصفانہ معاشروں میں حکومتیں یا تو کمزور ہوتی ہیں یا خود ناانصافی کی مرتکب ہوتی ہیں، اور اس ضمن میں یہ مشورہ نہایت پراسرار ہے. اگر یہ فرض کر لیا جاۓ کہ حکومت واقعی ایسا چاہتی ہے اور اخلاقی ترقی کی راہ میں کارگر بھی ہے، تو اس صورت میں بھی واضح حل اختیار کی طلب ہے – تاکہ سب اپنی آزادئِ اظہار کے حق کا بھرپور استعمال کرسکیں.
دوسری تشریح یہ تجویز کرتی ہے کہ ہم – ہم جو کہ آزادئِ اظہار کی بحث کے حصّہ دار ہیں – ہمیں آزادئِ اظہار کی وکالت سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، بلکہ غیرمنصفانہ معاشروں میں ہمیں آزادئِ اظہار پر حدود کی وکالت کرنی چاہیے. لیکن ظُلم کا اس طور سے جواب، اپنی اخلاقی ذمّہ داریوں کو بالاۓ طاق رکھنے کے مترادف ہے. ظالم حکومتیں تو یہی چاہیں گی کہ اُنھیں حقِ اظہار پر جبر کا دانشوارانہ جواز مل جاۓ. بہتر ممکنہ حل یہ ہے کہ آزادئِ اظہار کے لئے جدوجہد کو ایک وسیع تر سیاسی فلسفے سے متصل کر دیا جاۓ جس کا مقصد سب کی خودمختاری اور نجات ہو.
دوسری تشریح کو مسترد کرنا پہلی تشریح کو مسترد کرنے سے نسبتاً پیچیدہ ہے. کیونکہ کئی بار وہ عمل جو ایک مثالی صورتِ حال میں مناسب ہوتا ہے، وہ ایک غیر مثالی صورتِ حال میں نا مناسب بھی ہو سکتا ہے. مثلا رات کو دیر تک بغیر کرفیو کے باہر رہنے کے قانونی حق کا دفاع اس صورت میں کمزور پڑ جاتا ہے جب ان اوقات میں تخریب کار دھماکوں کا خطرہ لاحق ہو. آزادئِ اظہار سے متعلق بھی اس قسم کے قیاس کا اطلاق ممکن ہے. لیکن اس دعویٰ کو مسترد کرنا ضروری ہے. ایسا صرف اس لئے نہیں کے ہمارے پاس اعلیٰ حکام کی اخلاقی خطاؤں کی اور ان پر شک کرنے کی بیشمار مثالیں اور وجوہات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حقِ اظہار کو دبانا چاہتے ہیں (چاہے کسی نام نہاد عظیم مقصد کی خاطر) نا کہ اُن حکام اعلیٰ کی کہ جو واقعتاً اجتماعی قتل کی روک تھام چاہتےہیں. بنیادی طور پر ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ آزادئِ اظہار مخصوص ہے. یہ انصاف کے حصّول کی پیشگی شرط ہے. نہ صرف اس لئے کہ اس کا تعلق ایک بہتر زندگی کی اس جدوجہد سے ہے جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے، بلکہ اس لئے کہ انصاف کی شناخت اور دوسروں کو اس پر یقین رکھنے کی تلقین کے لئے کھلی گفتگو اور عوامی سطح پر غور و فکر لازم ہے – ہیرا پھیری سے نہیں بلکہ صاف شفّاف مکالمے کے ذریعے: جس کو جرگن ہیبرماس “بہتر دلیل کی بے- جبر طاقت” قرار دیتا ہے. یہ سچ ہے کے آزادئِ اظہار ایک منصفانہ سیاق و سباق میں سب سے زیادہ مؤثر اور اھم ہے. لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ غیرمنصفانہ سیاق و سباق میں کسی اہمیت کا حامل نہیں. آزادئِ اظہار ظلم سے انصاف کی جانب منتقلی میں ناگزیر کردار ادا کر سکتا ہے. کئی بار یہ اظہار پنشن پر بحث جیسے معمولی اختلاف سے زیادہ دھواں دار بھی ہو گا؛ سیبسٹین ایک ایسے فراخدل، مہذب معمول کی تائید میں درست ہے جو پرجوش اور گرماگرم بحث کو بند کرنے کے بجاۓ اس کو سہل بناۓ. یہاں پر کہیں بھی یہ تجویز نہیں کیا گیا کہ آزادئِ اظہار یہ سب کچھ کر دکھاۓ گا. بعض اوقات برآئی سے سامنے میں تشدّد جائز ہوتا ہے. لیکن حقِ آزادئِ اظہارِ راۓ آغاز و انجام، دونوں ہے: یہ انصاف کی جانب طویل مہم کا پہلا قدم، اور جب ہم ایک منصفانہ دنیا حاصل کر لیں – اگر کبھی ایسا ممکن ہوا – تو اس دنیا کی مخصوص توضیح بھی ہے.
reply report Report comment
Freedom of Speech Response
As we were reading your piece in our IB Language and Literature class and discussing issues such as free speech, hate speech and their implications, the article raised some quintessential questions. As suggested by Sebastian Huempfer’s ruminations that “In the face of injustice, free speech must for the sake on justice- be restricted,” I must say that I disagree with your rejection of Huempfer’s views. I believe that as Huempfer said, “advocating for free speech could lead to further oppression.”
Referring to the civil war in Syria, which initiated as a protest against the current government (an act of unfolding free speech), but later escalated into a bloody civil war. The protests ignited from a call to freedom on social media. In this case, the protesters were at a disadvantage thus speaking freely had a negative effect as they are in a civil war for three years now. The government is more powerful as it has a strong equipped military force, ammunition and support from Iran and Russia. The government used the military to control the population by fear and intimidation, speaking out against the government was punishable by the law. On the other hand the protestors had limited resources and did not gain foreign supporters until after the protests started. At this point aid and protection, whether military or humanitarian was difficult to get into Syria due to the vast control of Al-Assad’s forces. If the protesters, had a more detailed plan and a more professional approach by gaining foreign supporters and equipping themselves with enough food and weapons to protect themselves from the wrath of the government after speaking out against them, things might have ended differently and more importantly they would be protected from the rage of the dictating government. Lack of Internet freedom was both a cause of the uprising and a tactic employed by the authorities to quell protests. The Internet has always been monitored by the government, however since June 3, 2011 the internet was shut down completely as word of the protests spread throughout the country. Nevertheless, freedom of speech should not be completely restricted but also not unlimitedly permitted for the sake of the vulnerable.
Another example is the failed revolution in Morocco, which started in 2011 and ended the following year. The protests initiated after the breakout of protests in Libya. The government quickly put down the revolution as it was not on a big scale and now many of those who protested are imprisoned and suffering greatly. After the wake of 2011 pro-reform demonstrations that toppled presidents in Tunisia, Egypt and reached Morocco, Morocco’s constitution was drafted and adopted by a referendum on July 1, 2011. It guarantees “freedom of thought, opinion, and expression in all its forms.” The 2011 constitution also departs from previous constitutions by no longer defining the “person of the king” as “sacred,” although it declares it “inviolable” and “owed respect.” The drafting of the constitution was one of the results of the demonstrations but still, we see that the laws of the new constitution were not obeyed. Abdessamad Haydour, a 24-year-old student, is more than halfway through a three year sentence for denouncing King Mohammed VI in a video posted on YouTube. Haydour is an example of many others who suffer immensely from the oppression of the regime.
Freedom of speech for all has become a cliché. We all vouch for free speech but to do we really consider the implication it has on those who are vulnerable to oppression weather from their government or other parties. Shouldn’t free speech only be encouraged while providing the right circumstances for the sake of the vulnerable? Just like in Syria and Morocco, the people are still tormented for speaking freely against the government. Freedom of speech should be restricted in societies where it causes harm, however the right to express themselves should be guaranteed after their safety.
Students at the American School of The Hague
reply report Report comment
Hi Essoulami-
Thanks for your fantastic comments across FSD and for alerting us to International Right to Know Day. Would you be interested in writing a piece for our site on the right to know in the Middle East? If so, please email editor@freespeechdebate.com.
reply report Report comment
It would be good if you organise a debate on freedom of information around the world as the 28th of September is the International Right to Know Day. I can speak abou the MENA region as I am based in London.
reply report Report comment
I believe without freedom of speech it is impossible for a country to advance..Even more to this, it is impossible for the world to advance since nowadays our voice is heard worldwide due to social media networks and global networking connections which has made the world connected. However as we tend to see what has been taking place in the middle east for the past 2 years now, after the different revolutions happening in 2 different countries and the 3rd one on its way, i have to disagree with you lates comment Mr sebastien Huempfer. First of all if you call freedom of speech “meaningless” then we will never be able to advance in this world and will live miserable lives and it will get worse and worse each year since we all know that the minority which control us, will only be brought down or heard through freedom of speech. Freedom of speech is the only political weapon which 2nd class citizens as you call it, i would better name is anarchists, hold this freedom to right for there rights and justice. It is a fact that we have no power however if we do not struggle to shout out and fight for what we believe in than we are only going backwards in our standards of living. To overcome this opression and extreme inequality around us, we MUST have freedom of speech so that we can express fully what we feel and trigger others who are helpless to join and create on big community to fight for our justice and overthrow this unjust regime which we live in.