الاظہر کا ‘انسانی حقوق کا بل’

اس اسلامی ادارے کے بنیادی حقوق کے بارے میں بیان یہ واضح کرتا ہے کہ شریعت کے قانون اور عالمی مسودوں میں کدھر وہ ہم آہنگی ہے جس کے زریعے ہم آزادی اظہار راۓ کی ضمانت کر سکتے ہیں.

٢٠١٢ کے شروع میں شائع ہونے والا الاظہر کا بنیادی حقوق کے بارے میں بیان راۓ، عقائد، تخلیقی کاوش اور سانسی تحقیق کی آزادی کو فروغ کرتا ہے. یہ دستاویز الاظہر کے ایک نمائندے نے ٹموتھی گارٹن ایش کے اس کے شروع میں قاہرہ کے دورے کے دوران ان کے ساتھ شئیر کیا. آزادی اظہار راۓ پراجکٹ کی ٹیم ممبر حباتللہ طہہ نے اس کے مواد کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور پھر اسی نمائندے سے اس کی تصدیق کرائی گئی.

مبارک دور کے دوران الاظہر پر اکسار آزادی اظہار راۓ کو دبانے کا الزام لگایا جاتا تھا. شیخ امام محمد سید تنتاوی نے ٢٠١٠ میں اپنی رحلت تک سابق صدر کی پالیسیوں کی حمایت کی. اب مبارک کے بعد کے مصر میں الاظہر احمد الطیّب کی قیادت میں اپنی پرانی ساکھ واپس حاصل کرنے کی اور شریعہ قانون کو آزادی اظہار راۓ کے عالمی معاہدوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے.

مندرجہ ذیل دستاویز میں الاظہر اپنے پیغام کو ‘مذہب کا درست اور میانہ روی والا راستہ’ قرار دیتا ہے.اس دستاویز کی سب سے دلچسپ، اور ہو سکتا ہے کے سب سے متنازعہ، حصّوں میں سے ایک کا عنوان ‘آزادی اظہار اور راۓ’ ہے اور یہ کہتا ہے کہ ‘…ہمیں تینوں ابراہیمی مذہبوں کے عقائد اور رسومات کی عزت کرنا ہو گی تاکے قومی ہم آہنگی اور سلامتی کو کوئی خطرہ نہ لاحق ہو.  آزادی اظہار راۓ کے نام پر کسی کو بھی فرقہ ورانہ یا نظریاتی تنازعات اور جھگڑے شروع کرنے کا حق نہیں ہے. لیکن سانسی تحقیق کی آزادی کے اصول کی روح میں رہتے ہوئے مستند ثبوت کے ساتھ پیش ایک علمی راۓ پیش کیا جانے کا حق اشتعال انگیزی بلکل بھی نہیں اس کی مکمل آزادی ہو گی.’

اس بات کو اگر ہم ایک منٹ کے لئے اگر سائیڈ پر بھی رکھ دیں کے الاظہر کا بیان صرف تینوں ابراہایمی عقائد (اسلام، یہودیت اور عیسائیت) کی طرف ہے ، یہ بیان ہمارے ساتویں اصول سے کس قدر ہم آہنگ ہے: ‘ہم معتقد کی عزت کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ اس کے عقیدے کے مواد کی بھی عزت کریں؟’ ہم نے مارچ کے مہینے کے دوران ارشاد منجی کے ایک خطاب کروایا جس میں انہوں نے کہا کہ ‘برا ماننا ایماندرانہ تنوعی کا نتیجہ ہے.’ کیا آپ اس سے موتفق ہے؟ الاظہر کے اصل عربی میں بیان کا متن ادھر دیکھئے اور ذیل میں بلا جھجھک تبصرہ کیجئے.

اللہ کا نام لے کر، جو کے نہایت رحم کرنے والا ہے

عظیم الاظہر

الاظہر کے شیخ کے آفس سے

الاظہر کا بیان براۓ بنیادی آزادی

حال میں پیش آنے والے آزادی کے انقلاب کے ذریعے تخلیق و کاوش کی جو نئی لہر دوڑی ہے اس کی نظر میں مصر، عرب اور دیگر اسلامی ممالک اپنے علماء اور دانشوروں کی طرف اس امید سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ بنیادی حقوق و آزادی کے بارے میں متفقہ طور پر طے ہونے والے عالمی معاہدوں اور شریعت کے درمیان کوئی ہماہنگی اور جڑاؤ ڈھونڈ سکیں. یہ بنیادی آزادی کے اصول مصری عوام کے ثقافتی تجربات سے ابھرے ہیں، جس طرح انہوں نے قوم کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور اس کے طویل القائم اصولوں کی توثیق کی. دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ ان اصولوں کی بنیادوں سے لوگوں کے آگاہ کریں تاکے ترقی کے ضروری مراحل کو طے کیا جاۓ اور مستقبل کو اور زیادہ روشن بنایا جا سکے.

جس آزادی کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ یہ ہیں: عقائد و ایمان کی آزادی، آزادی اظہار راۓ و تقریر؛ سائنسی تحقیق کی آزادی اور ادبی اور فنی تخلیقکاری کی آزادی. ان تمام آزادیوں کے لئے ہمیں شریعت کا بنیادی مقصد اور ساتھ ساتھ جدید آئینی قانون سازی اور انسانی معلومات کے فروغ کی ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا. اس لنک کے زریعے قوم میں ایک روحانی توانائی پیدا ہو گی جو کے ایک بیداری کا باعث بنے گا، اور جسمانی کام اور اخلاقی ترقی کے عمل کو اور تیز کرے گا. اس کوشش کو ایک منطق پر بنیاد کردہ ثقافتی بیانیہ اور روشن خیال مذہبی بیانیہ کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑے گا. یہ دونو بیانیہ ایک دوسرے کے متجاوز ہیں اور ایک دوسرے کی اس طرح حمایت کرتے ہیں کہ مستقبل روشن ہو اور سب کے لئے متفقہ مقاصد مقرر کئے جا سکیں.

اس لئے الاظہر کے دانشوروں کے انسانی حقوق اور آزادی کے نظامات کے علمی اجزاء کا بغور جائزہ لینا اور ان سے ان اصولوں اور قواعد نکالنا بہت ضروری ہیں جو کہ ان قوانین کی جڑ میں ہیں. اس کا بنیاد آج کی ضروریات اور ساتھ ر ساتھ مختلف کمیونتیوں کے درمیان ہماہنگی برقرار رکھنے پر ہے؛ جس میں اس بات کو ضرور غور میں لایا جاۓ گا کہ عوام کی جمہوری عمل میں کتنی دلچسپی ہے اور جب تک خدا کی برکت سے قوم امن کے ساتھ اپنے آئینی اداروں کو کھڑا کر لیتی ہے.

یہ کچھ متنازع باتوں کے پھیلنے کو روک سکتے ہیں جیسے کہ وہ باتیں جو کے ‘اچھائی کو فروغ دینے اور برائی کو روکنے’ کا جواز دے کر عوامی اور نجی آزادیوں میں عمل دخل ہوتے ہیں. یہ اقدام جدید مصر کی ثقافتی اور سماجی نشونما کے لئے ٹھیک ہیں؛ اس وقت پر ملک کو یکجہتی اور مذہب کی ایک درست اور میانہ روی والی تفہیم کی ضرورت ہے. یہ ہی الاظہر کا عوام اور قوم کو مذہبی پیغام اور ان کی طرف اس کی ذمہ داری بھی ہے.

پہلا: عقائد و ایمان کی آزادی

عقائد کی آزادی اور اس کے ساتھ جڑا ہوئے شہریت کے پورے حقوق، جن میں حقوق اور فرائض کی مکمل برابری موجود ہے، ایک جدید قوم کے قیام کے لئے ضروری بنیاد ہے. یہ عبد تک کے لئے نازل ہونے والی مذہبی کتابوں اور صاف و شفّاف آئینی اور قانونی اصولوں کے زریعے گارنٹی کئے جاتے ہیں. جس طرح خدا تعلی کہتے ہیں: ‘مذہب (کے ماننے) میں کوئی جبر نہیں ہیں. صحیح راستہ غلط راہ سے بلکل واضح ہے،’ اور ساتھ میں یہ کہ ‘جو کوئی چاہتا ہے اس کو ایمان رکھنے دو؛ اور جو نہیں چاہتا اس کو نا رکھنے دو.’

یہ آیات مذہب کے معاملے میں کسی بھی قسم کے جبر، تعصب یا ناانصافی کو ایک جرم قرار دیتی ہیں. معاشرے کے ہر فرد کے پاس کسی بھی قسم کے عقیدے پر ایمان رکھنے کا حق حاصل جب تک کے اس کی وجہ سے معاش کا ایک خدا پر یقین رکھنے کے حق کی تلفی نہیں ہوتی. تینوں ابراہیمی مذاہب نے اپنے مقدس عقائد کو برقرار رکھا ہے اور ان کے پیروکاروں کو اپنی رسومات ان کے تقدس پر کسی کے حملے اور ان کے ساتھ جارحانہ سلوک کے بغیر، اور جب تک کے یہ عام نظم و ضبط کے لئے نقصان دہ نہیں، پوری کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے.

کیوں کہ عرب دنیا بہت سے مقدس مذاہب کے نزول کا مقام ہے، ہم ان کے تقدس کی حفاظت، ان کی رسومات اور ان کے پیروکاروں کی آزادی، عزت اور بھائی چارے کے حق پر پوری طرح قائم ہیں.

آزادئ عقائد سے ہی ایک کثرتیت سماج، اختلاف کرنے کا حق اور ہر شہری پر دوسروں کے جذبات اور سب کی برابری کے حق کو تسلیم کرنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے. یہ برابری شہریت، شراکت داری اور تمام حقوق اور فرائض کے برابر مواقع کی مضبوط بنیاد پر مبنی ہے.

اس کے ساتھ ساتھ عقائد و ایمان کی آزادئ میں یہ بھی آتا ہے کہ ہم علیحدگی اور تکفیر (ایک مسلمان کی طرف سے دوسرے مسلمان اس کے کسی عقیدے، عمل یا بول کی وجہ سے غیر مسلم قرار دینے کا عمل) کو مسترد کریں اور ایسے رجحانات کو بھی مسترد کریں جو دوسروں کے عقائد کی مذمت یا دوسرے ایمان والوں کے ضمیر کو چھاننے کی کوشش کرے. اس کی بنیاد پہلے سے قائم شدہ آئینی نظام اور شریعت سے نکالے گئے نتیجہ خیز اصول ہیں جو کہ کئی مسلمان دانشوروں نے بھی رسول خدا حضرت محمد سے متاثر ہو کر نتیجہ اخذ کیا ہے، کیوں رسول نے ایک دفع کہا تھا کہ ‘کیا تم نے اس کا سینہ چیر (اور دل کھول) کر دیکھا ہے؟’ اسی طرح کی راۓ بہت سے اماموں نے بھی دی ہے جن میں مدینہ کہ امام مالک شامل ہوں جو کہتے ہیں ‘اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کی ہے جو کفر کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ معاملہ یوں نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں نکالنا چاہئے کہ وہ اپنا ایمان کھو بیٹھا ہے.’ اسلامی فلسفے اور قانون سازی کے نمایاں اماموں نے ہمارے لئے کچھ سنہرے اصولچھوڑے ہیں: ‘اگر عقل اور متن میں بظاہر کوئی تنازعہ ابھرتا ہے تو عقل کو ترجیح حاصل ہے اور متن کی دوبارہ تشریح کرنی چاہئے.’ یہ قانونی تقاضوں کو ذہین میں رکھتے ہوئے شریعت کے مقاصد کو پوری طرح مطمئن کرتا ہے.

دوسرا: آزادئ اظہار اور راۓ

آزادئ راۓ، چاہے یہ بولنے، لکھنے، فن کے ذریعے یا ڈیجیٹل مواصلات کے لئے ہو، تمام آزادیوں کی بنیاد ہے. یہ ان سماجی آزادیوں کا اظہار ہے جو افراد سے آگے جا کر بہت سی چیزوں کو شامل کرتی ہے جیسے کہ سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی اداروں کا قیام، پریس اور آڈیو، بصری اور ڈیجیٹل میڈیا کی آزادی اور راۓ کا اظہار کرنے کے لئے ضروری معلومات تک آسان اور کھلی رسائی. ان آزادیوں کی آئین میں پوری ضمانت ہونی چاہئے جو کہ عام بدلتے ہوئے قانونوں سے ماورا ہونی چاہئے. مصر کی اعلیٰ آئینی عدالت نے آزادئ اظہار کی تعریف کی توسیع کر کہ اس میں مثبت تنقید، چاہے وہ تلخ الفاظ میں ہی کیوں نہ ہو، کو شامل کیا ہے. عدالت نے کہا کہ ‘عوام کے معاملات کے بارے میں آزادئ اظہار راۓ کو محدود کرنا مناسب نہیں. اس کو برداشت نہیں کیا جانا چاہئے.’ لیکن قوم کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی سلامتی کو خطرے سے بچانے کے لئے ہمیں تینوں ابراہیمی مذہبوں کے مقدس عقائد اور رسومات کی عزت کرنی ہو گی. لیکن مناسب ثبوت کے ساتھ پیش کیا جانے والی ایک علمی راۓ اشتعال انگیزی نہیں اور سائنسی تحقیق کی آزادئ کی روح میں اس کی ضمانت سے جانی چاہئے.

ہم اعلان کرتے ہیں کہ آزادئ اظہار اور راۓ اصلی معنوں میں جمہوریت کے لئے ضروری ہیں. ہم ساری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ ایک نئی نسل کو ایک زادی کے ماحول میں بڑا کریں تاکے وہ دوسروں سے اختلاف کرتے ہوئے بھی ان کی عزت کرنا سیکھیں. اس کے علاوہ ہم مذہبی، ثقافتی اور سیاسی شعبات میں کام کرنے والے کارکنان سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ اس بات کو ضرور نظر میں رکھیں اور عوام کی راۓ مولنے میں دانش سے کام لیتے ہوئے روشن خیالی، رواداری اور تعصب مخالف مکالمے کے اقدار کو فروغ دیں. اس کو پانے کے لئے ہمیں بردبار اسلامی فلسفے کی ثقافتی روایات کا سہارا لینا ہو گا. اس کے ایک مثال ایک امام کا قول ہے کہ ‘میں سمجھتا ہوں کہ میری راۓ درست ہے پر یہ غلط بھی ہو سکتی ہے اور یہ کے دوسروں کی راۓ غلط ہے پر یہ ٹھیک بھی ہو سکتی ہے.’ آزادئ اظہار اور راۓ کو مضبوط بنیادوں پر وایم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہی ہے کہ مکالمے کے اخلاقیات اور مہذب معاشروں کی ثقافتی روایات کے مطابق مستند دلیل دی جاۓ.

تیسرا: سائنسی تحقیق

سماجیات، قدرتی سائنس، کھیل اور دیگر شعبوں میں گہری سائنسی تحقیق انسانی ترقی کا انجن اور کائنات کے قانون اور طور طریقے سمجھنے کا ایک طریقہ ہے. اس معلومات کو انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے. لیکن یہ تحقیق اس وقت تک نا کی جا سکتی ہے اور نہ اس کے پھلوں سے مستفید ہوا جا سکتا ہے جب تک قوم اس پر اپنے وسائل اور اپنی توانائی خرچ کرنے کو تیار نہ ہو. قران انسانی اور کائنات کے معاملات کو سمجھنے کے لئے اکثر منطق، جائزہ، تخمینہ، پیمائش اور مراقبہ کے استعمال کی تلقین کرتا ہے. اس ہی لائحہٴ عمل کی وجہ سے مشرق کی تاریخ کا سب سے وسیع سائنسی بیداری آئی تھی جو کہ مشرق اور مغرب دونوں کے انسانوں کے لئے ایک عظیم الشان معرکہ ہے. یہ بات اب عام طور پر جانی جاتی ہے کہ اس بیداری میں کی پہل اسلامی دانشوروں نے کی تھی جو شمع بعد میں مغربی دانشوروں نے تھامی. جیسے کے سارے عالم کہتے ہیں کہ اگر علم اور فن کی مختلف شاخوں کے بارے میں سوچ بچار اسلام میں فرض ہے تو پھر اصولی اور تجرباتی سائنسی تحقیق اس فرض کو پورا کرنے کا ایک طریقہ ہے. اس کی سب سے ضروری شرٹ یہ ہے کہ تحقیقی اداروں اور سائنسدانوں کے پاس تجربات اور مفروضات کرنے کی مکمل علمی آزادئ ہونی چاہئے تاکے وہ اپنے تحقیق سائنسی معیارات کے عین مطابق کر سکیں. ان اداروں کے پاس یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ تخلیقی کاوش اور ضروری تجربے کو برقرار رکھیں تاکے نئے تجربات و نتیجات کے زریعے انسانی علم کے سمندر میں اضافہ ہوتا رہے. اس مقصد کو پانے میں سائنسی اخلاقیات اور معیارات کے علاوہ ان کی مدد کسی اور چیز سے نہیں کی جا سکتی.

اعلیٰ پاۓ کے مسلمان دانشور جیسے کہ الراضی، ابن الھیتھم، ابن النافس مشرق اور مسغرب دونوں میں صدیوں تک سائنسی علم کے بانی رہے. اب وہ وقت آ گیا ہے کہ عرب اور اسلامی قومیں طاقت کی دوڑ میں واپس آجائیں اور معلومات کے دور میں داخل ہوں. سائنس فوجی اور معاشی طاقت کا ذریعہ اور ترقی و خوشحالی کی بنیاد بن چکی ہے. اس کے ساتھ ساتھ آزاد سائنسی تحقیق تعلیمی ترقی کی بھی بنیاد بن چکی ہے. سائنسی سوچ کی بالادستی اور پروڈکشن سینٹروں کی ترقی، جن کو وسیع بجٹ، ٹاسک فورسیں اور بڑے منصوبوں میں شامل کیا جاۓ گا، کا تقاضہ ہے کہ سائنسی اور انسانی تحقیق کو سب سے اونچی ترجیح دی جاۓ. مغرب اس چیز کے قریب تھا کے تمام کی تمام سائنسی ترقی اس کے ہاتھ میں رہ جاۓ.اگر جاپان، چین، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا کا عروج نہیں آتا تو مغرب کی سائنسی ترقی پر اجارا ہوتا ہے؛ اسی لئے یہ ممالک مشرق وسطیٰ کی اس اجارے کو توڑنے کی صلاحیت اور سائنس اور معلومات کے راستے پر رواں دواں ہونے کے لئے بہترین ماڈل ہیں. مصریوں، عربوں اور مسلمانوں کے لئے مقابلہ جاتی سائنسی اور ثقافتی شعبوں میں داخل ہونے کا وقت آ چکا ہے. یہ حاصل کرنے کے لئے درکار روحانی، معاشی اور انسانی توانائی ان کے پاس موجود ہے اور ساتھ ساتھ ایسی دنیا میں ترقی کرنے کا ماحول بھی ہے جس میں کمزور اور پیچھے رہ جانے والوں کی کوئی عزت نہیں.

چوتھا: فنی اور ادبی تخلیق کی آزادی

تخلیقی صلاحیت دو اقسام کی ہوتی ہے: (سائنسی تحقیق میں تخلیقی صلاحیت (جیسے کے مندرجہ بالہ بیان کیا گیا ہے) اور وہ تخلیقی صلاحیت جو ادب اور فن کے مختلف اقسام میں پایا جاتا ہے جیسے کے عام اور ڈرامائی شاعری، افسانے اور نان فکشن، تھیٹر، سوانح عمری، بصری اور آڈیو فنون، فلم، ٹی وی، موسیقی اور فن کی دیگر نئی اشکال جن کا اب ان اقسام میں شمول ہوا ہو.

عام طور پر ادب اور فن کے مقاصد اصلیت کے بارے میں شعور پیدا کرنا، تصور کو فروغ دینا، جمالیاتی احساسات کو بہتر کرنا، انسانی جذبات اور احساسات کو تعلیم و فروغ دینا اور زندگی اور سماج کے بارے میں انسانی تجربات کو گہرائی دینا ہوتا ہے. فن اور ادب اکثر سماج پر تنقید کرتے ہوئے متبادل (اور بہتر) رستے بھی تجویز کر سکتے ہیں. یہ تمام افعال اپنے حساب سے اہم ہیں اور ان سے ثقافت و زبان کی افزودگی، تصورات اور خیالات کو فروغ ملتا ہے اور ساتھ مذہبی اور اخلاقی اقدار کا بھی خیال رکھا جاتا ہے.

عربی زبان ہمیشہ سے ہی اپنی ادبی سمردد اور نمایاں خوبصورتی کے لئے جانی جاتی تھی اور قران پاک سے اس کی خوبصورتی، خوشفصیحی اور گہرائی اپنی چوٹی پر پہنچ گئی ہے. قران نے شاعری، نثر اور حکمت کے فن کو فروغ دیا اور ان تمام قومیتوں کے مصنفین اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کی جو عربی بولتے تھی اور جنہوں نے اسلام کو قبول کیا. کئی سالوں تک یہ افراد تمام فنون میں بغیر کسی پابندیوں کے ترقی کرتے رہے. عرب اور اسلامی ثقافتوں سے ابھرنے والے کئی سائنسدان مختلف اقسام کی شاعری اور افسانہ پڑھنے میں ماہری رکھتے تھے. تخلیقی کاوش کی آزادی پر اثر انداز ہونے والے بنیادی اصول سماج میں اس کی قبولیت، اس کی اپنے ورثے کو قبول کرنے کی اور فنی اور ادبی تخلیقات میں جدت قبول کرنے کی صلاحیت ہے. یہ اصول مذہبی جذبات یا قائم و دائم اخلاقی اقدار کو نہیں چھونے چاہیئیں. فنی اور ادبی تخلیق آزادی کے بنیادی اصولوں کے اظہار کا ایک اہم طریقہ ہیں اور ان کا سماج میں شعور بڑھانے اور اس کے ضمیر کو جگانے میں ایک بہت کلیدی کردار ہے. جب یہ منتقی آزادی جڑیں پکڑ لیتی ہے تو یہ جدت کی ایک نشانی بن جاتا ہے کیوں کہ ادب اور فن سماج کے ضمیر کا آئینہ اور اس کے تغیرات کا ایک مؤثر اظہار ہوتے ہیں. یہ سماج کی ایک بہتر مستقبل کی کاوش کا ایک روشن تصور خاکہ پیش کرتے ہیں اور خدا کی ان سب چیزوں پر رحمت ہو جو کہ درست اور اچھی ہیں.

اس پر الاظہر شیخڈوم میں دستخط ہوئے

١٤ صفر ١٤٣٣ سنہ ہجری – ٨ جنوری ٢٠١٢ اے سی

الاظہر کے عظیم شیخ

ڈاکٹر احمد الطییب

مزید پڑھئے:

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی