کیا گوگل کا الگورتھم کسی سیاستدان کی بیوی کو بدنام کر سکتا ہے؟

سابقہ جرمن صدر کی اہلیہ ‘بیٹنہ ولف’ کا نام اگر گوگل میں ٹائپ کیا جاۓ تو آٹو کمپلیٹ آپشن اس کے آگے ‘ایسکورٹ (طوائف)’ لگا دیتا ہے. کیا الگورتھم کی طرف سے یہ اضافہ بدنامی کا ایک طریقہ ہے؟ سباسچین ہمپفر اس کیس پر روشنی ڈالتے ہیں.

جب گوگل کے صارفین انگریزی یا جرمن زبان میں سرچ انجن میں ‘بیٹنہ ولف’ لکھتے ہیں تو آٹو کمپلیٹ آپشن ‘ایسکورٹ (طوائف)’ یا جرمن میں ‘طوائف’ اور ‘ریڈ لائٹ’ کا لفظ تجویز کرتا ہے. یہ تجاویز سابقہ جرمن صدر کی اہلیہ کے بارے میں عام لیکن بلا ثبوت افواہوں کی بنا پر دیا جاتا ہے جن کو سب سے پہلے ان کے خاوند کے سیاسی مخالفین نے مشہور کیا تھا.

ستمبر ٨ ٢٠١٢ کو ولف نے گوگل کے خلاف بدنامی کا قانونی مقدمہ دائر کر دیا اور کمپنی پر اپنی ‘ساکھ تباہ’ کرنے کا الزام لگایا. ولف نے جانے پہچانے جرمن ٹی وی ہوسٹ گنتھر جاوخ پر بھی ٹی وی پر ان افواہوں کے بارے میں بات کرنے پر مقدمہ دائر کیا جب کے انہوں نے جرمنی اور دوسرے ممالک میں ٣٤ مطبوعات کو اس حرکت سے گریز کرنے کا خط بھیجا. ایک تصفیہ کے تحت جاوخ نے اس معاملے کے بارے میں اور زیادہ بات کرنے سے گریز کرنے پر اتفاق کر لیا اور عدالتوں نے کئی مطبوعات کو ولف کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا.

گوگل اس سے ملتے جلتے پانچ اور قانونی مقدمے جرمنی میں جیت چکا ہے اور ابھی تک کمپنی نے ان آٹو میٹک تجاویز کو یہ کہتے ہوئے بدلنے سے انکار کر دیا کہ ‘گوگل کے آٹو کمپلیتے میں تجاویز تمام صارفین کے سرچ ٹرمز کی اکاسی کرتے ہیں’ اور ان کا احاطہ ایک الگورتھم کرتا ہے نہ کے کوئی ایڈیٹر. لیکن گوگل نے پہلے برطانیہ، جاپان اورفرانس میں بدنامی اور علمی جائداد کے کیسوں کے جواب میں آٹو کمپلیٹ کی تجاویز کو بدلا ہے. آٹو کمپلیٹ کچھ سرچ ٹرمز کے لئے مستقل طور پر بند ہے جیسے کہ ‘کوکین’ اور ‘سکول گرل’ تاکے قابل اعتراض اور غیر قانونی تجاویز نہ دکھائی جائیں.

اپنی سپورٹ سائٹ پر گوگل کہتا ہے کہ آٹو کمپلیٹ صارفین کو ‘اپنی انگلیوں کو آرام دینے کا’ اور کسی ‘پسندیدہ سرچ’ کو واپس چلانے کا موقع دیتا ہے. کمپنی مزید کہتی ہے کہ وہ ‘ہٹانے کی پالیسی سرچ ٹرموں کی ایک چھوٹی مقدار کے لئے استمعال کرتے ہیں جیسے کے فحاشی، تشدد، نفرت آمیز گفتگو اور ایسے ٹرم جو کے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرنے والے مواد تک لے جاتے ہیں.’  آٹو کمپلیٹ کی تجاویز ہو سکتا ہے (اور ولف کے کیس میں یہی بات ہے) کہ اصل سرچ کے سب سے اونچے نتائج سے مختلف ہوں.

مزید پڑھئے:


تبصرے (3)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. A great piece!
    Dominic’s comment reminds me of Michael Bloomberg’s recent attempt of preventing just that by buying around 400 domains that included his name, including unfavourable ones like MichaelBloombergisaWeiner.nyc or BloombergistooRich.nyc.
    Unsurprisingly, this backfired as media outlets began reporting on the full list of bought domains…

  2. If person have rightful demands on institutes’ product, it should listen what subscriber said. The attitude toward every Internet company is necessary.

    After that, the company ought to think about public affects. Then, make a deeply thinking about how to balance personal privacy and fair of information.

  3. This is a great article and a tough question to argue either way.

    It gives me an idea: If I am going to run for political office I will get my campaign team to produce many websites saying how I am a nice guy. Then when people search my name it will autocomplete "Dominic Burbidge nice guy”. Who knows, maybe my political opponents will then sue Google.

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی