مشرق وسطیٰ میں ہم جنسی کو (نہیں) رپورٹ کرنا

برائن پیلوٹ لکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں میڈیا ہمجنس لوگوں کے معاملات پر اس طرح رپورٹ نہیں کرتی جس طرح وہ دوسرے تمام معاملات پر کرتی ہے.

ہم جنسی ایک ایسا ٹیبو موضوع ہے جس کو عام ذرائع ابلاغ رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں. اور اگگر اس بارے میں کوئی رپورٹ ہوتی بھی ہے تو اس کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ ہم جنسی یا تو کوئی غیر ملکی رجحان ہے یا پھر مغربی ممالک میں پھیلی ہوئی کوئی نفرت آمیز وبا ہے. ٢٠٠٦ میں اپنی کتاب ‘نا بولے جانا والی محبت: مشرق وسطیٰ میں مرد اور عورت ہم جنس پرستوں کی زندگی’ میں صحافی برائن وہیٹیکر ہمجنسی کے معاملے میں مشرقی وسطیٰ کی میڈیا کی اپنے آپ کی سنسرشپ پر روشنی ڈالتے ہیں. ان کے مطابق مقامی حکومتیں اکثر ہم جنسی کی مثبت عکاسی کو سنسر کرتی ہیں. جب عام ذرائع ابلاغ میں اس موضوع پر بات ہوتی ہے تو ہمجنسوں کے لئے عربی کے لفظ شدھ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کہ بہت سے منفی معنی ہیں اور جس کا انگریزی میں ترجمہ ‘پرورٹ’ ہے. اس کا سہرہ ایسے صحافیوں کے سر بھی ہے جن کی ہم جنسی میں درست تربیت نہیں ہوئی اور جو اس اقلیتی گروہ کے بارے میں غلط اور دقیانوسی تصوّرات حقائق تو طور پر بیان کر دیتے ہیں. نیوز روم کے باہر قانونی اور سقفتی حد سے تجاوزات کا خوف ہم جنسی کی ادبی ریسرچ کو بھی روکتا ہے. یہ چیز اس بات سے عیاں ہے کہ وہیٹیکر کی کتاب پر مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں پابندی عائد ہے.

مزید پڑھئے:


تبصرے (3)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. I believe that while all have an opinion, a story is a story no matter who the subject is. If the event is important it shouldn’t matter the sexuality of the people involved. It is a personal choice to simply omit this lifestyle, but it is 2012 and the world deserves to hear everything going on and recognize that gay people simply aren’t going to ‘disappear’ .

  2. Fated by oppressive regimes,religious leaders and their descendents,gay men stay out of view in the Middle East.In the Arabian World,most of places,homosexual sex remains illegal.Being homosexual is hard everywhere,but seems that in the Middle East or the homosexual is transparent or the men will be undergo to extreme punishments,where death is the only output.As Hussein Ibrahim pointed once , "Respect of human rights is now a concern for all peoples.”.Gay men shall no longer be afraid.Even though the Middle East tries to oppress their gay issue,it cannot be hidden forever.

  3. I was currently reading some interesting articles about homosexuality in the Gulf, which seems to have its own unique issues with sexual orientation. Particularly, this 2007 story from The Atlantic regarding homosexuality in Saudi Arabia – http://www.theatlantic.com/magazine/archive/2007/05/the-kingdom-in-the-closet/5774/ – seemed interesting. While some of the Saudis quoted in the article claimed that it was easier to be homosexual in a place where you virtually cannot have any contact with those of the opposite sex, it seems so much more complicated than that. I just can’t imagine living a life in fear of persecution from family, friends AND the government… especially when the punishment for displaying affection can be the end of one’s life.

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی