ایک سعودی بلاگر کی ‘توہین آمیز’ ٹویٹس

رائن پیلوٹ لکھتے ہیں کہ فروری ٢٠١٢ تک حمزہ کاشگری کو مبینہ طور پر ٹویٹر پر رسول خدا حضرت محمد کے بارے میں توہین آمیز باتیں کہنے پر ایک مقدمے کا سامنا تھا.

کیس

فروری ٢٠١٢ کو سعودی مصنف حمزہ کاشگری پر تین مختصر ٹویٹس کے زریعے رسول خدا حضرت محمد کی توہین کرنے کا الزام لگایا گیا. ایک پیغام کچھ یوں تھا ‘تیری سالگرہ پر میں جدھر منہ کروں ادھر تو ہی نظر آتا ہے. میں یہ کہوں گا کہ مجھے تیری کچھ چیزوں سے محبت ہے، کچھ سے نفرت اور کئی ایسی چیزیں ہیں جو میں سمجھ نہیں پایا ہوں’. ایک اور میں لکھا تھا کہ ‘میں تری پوجا نہیں کروں گا. تیرے سامنے نہیں جھکوں گا. تیرے ہاتھ کو نہیں چوموں گا.’ سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ نے کاشگری کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور ٹویٹر اور فیسبک پر ان تبصرات سے مجروح ہونے والے کئی لوگوں نے اس کی موت کا مطالبہ کیا. کاشگری نے جلدی سے ان پوسٹوں کو ڈیلیٹ کیا، ان کے اوپر معافی مانگی اور ملک چھوڑ کے چلے گۓ. ملیشیا میں، جو کے ایک اکثریتی مسلم ملک ہے، ایک سٹاپ اوور کے دوران ادھر کے سرکار نے ان کو روک کر واپس سعودی عرب ڈپورٹ کر دیا. انسانی حقوق کے گروہ اور مقامی وکیل کہتے ہیں کہ ان پر توہین رسالت کا الزام لگایا جاۓ گا جس کی سزا موت ہے. کاشگری ابھی اپنے مقدمے کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں.

مصنف کی راۓ

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کاشگری کو ڈپورٹ کرنے پر ملیشیا کی مذمت کی ہے اور سعودی حکام سے اپیل کی ہے کے کاشگری پر ٹویٹر سے تعلق رکھنے والے تمام الزامات ہٹا لئے جایئں اور ان کو رہا کر دیا جاۓ. اس کیس کے انسانی حقوق کے عناصر عیاں اور اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئیے میں ان گروہوں کی پوری طرح حمایت کرتا ہوں. لیکن آزادی اظہار کے حساب سے زیادہ دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیا کاشگری پر اپنی ٹویٹس ڈیلیٹ کرنے پر اور عام طور پر معافی مانگنے پر رعایت کی جاۓ. کیا پوسٹ جاری ہونے کے بعد خود ساختہ سنسرشپ کی بنا ان کو معاف کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک مخصوص گروہ کے لئے دکھ آمیز باتوں کو ڈیلیٹ کرنے یا ان کو واپس لینے سے اس اصول – حق موعتقد کی عزت کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں اس کے مواد کی بھی عزت کریں – کے تقاضوں سے تجاوز کرتی ہے؟ مثال کے طور پر حضرت محمد پر بناۓ گاۓ کارٹونوں کا کیس لیجئے. ڈینش اخبار جللینڈس-پوسٹین نے ان کارٹونوں کو چھاپنے کے اپنے حق کا دفاع کیا تھا لیکن ان کی وجہ سے کسی کے بھی جذبات مجروح ہونے کی صورت میں ان سے معافی مانگی تھی. کیا ناراض مخالف  گروہوں پر یہ فرض ہونا چاہیئے کہ وہ معافی مانگے جانے یا بیانات واپس لئے جانے کے بعد اپنے شکایات کو دور کر لیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ کیا کاشگری یا جللینڈس-پوسٹین کو شروع میں معافی مانگنی چاہئے تھی یہ آزادی اظہار راۓ کے حوالے سے ایک اور بڑا سوال ہے لیکن صرف اس کیس کے واسطے کیا ایک معذرت معافی کے لئے کافی ہونی چاہیئے؟

- Brian Pellot

مزید پڑھئے:


تبصرے (3)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. I believe that an apology can be the grounds for amnesty. But that opinion comes from a mind set that humans are likely to make mistakes and wrong decisions that might lead to offending the others. I am not sure it is applicable for the case of a murder by a mentally stable person, since it involves the loss of a life, which I believe is the most precious value we have. However words can hurt as well, but if some one realises the harmful consequences of his/her doings and regrets doing it, then gives a public apology it is a solid ground for forgiving the person. The public was outraged with his/her opinion , but if this opinion changes there is no reason left to be dissatisfied.

  2. The whole point is that it doesn’t matter what he actually wrote or what he meant by it, or what he does after the big red "offence” button has been pushed. The button is meant to scare us – and it works. It’s pointless even discussing whether Hamza Kashgari did anything "wrong” – that’s irrelevant to the working of the button. It can be pushed at any time, any where. Anyone can find themselves in the blast zone. The idea is to make people afraid, to watch what they say, and to self-censor. It happened to be Hamza Kashgari in Saudi Arabia yesterday, just as it was David Jones in Gatwick airport today. As Malamud said "A thick, black web had fallen on him because he was standing under it”. Well now we’re all standing under it.

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی