اورلانڈو فگیس اور گمنام زہریلا قلم

ایک تاریخدان کا اپنے مدمقابل کی کتاب کے بارے میں امیزون پر انتہائی تنقیدی جائزے لکھنے میں کیا غلط ہے؟ اس دردناک اور ساتھ ساتھ مزاحیہ کیس سے ابھرنے والے سوالات پر کیٹی اینگلہارٹ روشنی ڈالتی ہیں.

کیس

اپریل ٢٠١٠ ایک پراسرار تبصرہ نگار نے ‘ہسٹورین’ کے تخلص کے ساتھ سوویت تاریخ پر چھپنے والی نئی کتابوں کے امیزون ڈاٹ کام پر انتہائی تنقیدی جائزے لکھنا شروع کر دئے. ‘ہسٹورین’ نے پروفیسر ریچل پولونسکی کے کام کو ‘گھنا’ اور ‘دورت’ قرار دے دیا اور پروفیسر رابرٹ سروس کی نئی کتاب کو کو ایک ‘کچرا’ اور بیکار کتاب’ کہا. اس کے ساتھ ساتھ اس نے بربیک کالج کے پروفیسر اورلانڈو فگیس کی کتاب کو ‘خوبصورت اور ضروری’ قرار دے دیا. اس فیلڈ کے ممتاز ماہرین کے درمیان (جن میں فگیس شامل تھا) ایک ای-میلوں سلسلہ چلا جس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ‘ہسٹورین’ اصل میں فگیس خود ہی ہے. ان میں سے ایک ای-میل میں پروفیسر سروس نے جائزوں کو ‘پرانے سوویت طریقے کے ناساز نجی حملے’ کہا.

اور اس طرح یہ تعلیمی دنیا کو ہلانے والی کہانی شروع ہوئی. فگیس نے اپنے ا یہ الزامات پوری طرح مسترد کر دیے اور اپنے مدمقابلوں پر اس کی بدنامی کرنے کا الزام لگایا. جلد ہی اس نے اپنے وکیل کو کہہ کر پولونسکی، سروس اور تاریخدانوں کے خدشات کو چھاپنے والی اور بہت سی پبلیکیشن کمپنیوں کو قانونی کاروائی کی دھمکی دی. لیکن جیسے ہی قانونی دھمکیاں عام ہوئیں، فگیس کی بیوی بیرسٹر سٹیفنی پالمر نے جائزوں کو خود چھاپنے کا اعتراف کر لیا. بظاہر حیران و پریشان فگیس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کے اس ‘یہ بس ابھی ابھی پتا چلا ہے’.

لیکن یہ وضاحت بھی زیادہ دیر چل نا سکی. ٢٣ اپریل ٢٠١٠ کو فگیس نے ایک نئے جاری کردہ بیان میں ان جائزوں کی ‘پوری زمہ داری’ اپنے اوپر لے لی اور ان تمام لوگوں سے معافی مانگی جن پر اس نے الزامات لگاۓ تھے. اس نے بعد میں پولونسکی اور سروس کو قانونی ہرجانے کی قیمت اور ان کی قانونی کاروائی کی قیمت دینے پر آمادگی دی.

مصنف کی راۓ

جس طرح پولونسکی نے جولائی ٢٠١٠ میں بڑے فصیح طریقے سے کہا تھا، ‘ہماری کاروائی کی وجہ تخلص میں چھپے امیزون پر کتابی جائزے نہیں تھی. ہمارا مقصد اس بھاری خرچے کا معاوضہ حاصل کرنا تھا جو ہم نے پروفیسر فگیس کی قانونی دھمکیوں کے خلاف اٹھائے تھے…’ یہ ایک اہم تفریق ہے. حالانکہ ورلاندو فگیس کے اقدامات بزدلانہ، چھوٹی سوچ کی نشاندہی کرنے والے اور اس کی تعلیمی پوزیشن کو زیب نہیں دیتے تھے، فگیس کو اپنے ساتھیوں کی کتابوں پر جائزے شائع کرنے کا پورا حق حاصل ہے: چاہے وہ اس کے اپنے نامے سے ہوں یا کسی تخلص سے.

لیکن اس کے بعد ہونے والے قانونی تماشے کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ پولونسکی اور سروس دونوں نے فگیس کی جلدباز قانونی کاروائی کی دھمکی کی مذمت کی تھی جس کے زریعے فگیس نے ان پر بدنامی کرنے کے الزامات لگاۓ اور ان پر ہرجانہ کرنے کی دھمکی دی تھی. یقینا فگیس کی اپنے مدمقابلوں کے خلاف قانونی کاروائی کی دھمکی کافی عجیب اور مضحکہ خیز لگتی ہے – لیکن صرف اس لئے کے وہ پورے معاملے میں سراسر جھوٹ بول رہا تھا.

ہمارا نوواں اصول کہتا ہے کہ ‘ہمیں جائز بحث روکے بغیر اپنی ساکھ و عزت پر الزامات کا مقابلہ کرنے کا حق ہے.’ اگر فگیس سچ بول رہا ہوتا کہ وہ نامعلوم جائزہ دار نہیں ہے تو ہمیں اس کی اپنی پیشاورانہ ساکھ بچانے کی کوششوں سے ہمدردی ہوتی. یہ دردناک تو ضرور لگتا ہے جب ایک علمی بحث قانونی کاروائی کی طرف چلی جاتی ہے. لیکن صحیح حالات میں ہرجانے کا مقدمہ کرنے کے حق کو تحفظ ہونا چاہئے. فگیس نے اس حفاظت کا غلط استعمال کیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ (جیسے سروس نے اشارہ کیا ہے) کہ یہ حفاظت ہی غلط ہے.

در حقیقت اس تماشے کے بعد سروس کے بیانات قابل فکر ہیں. سروس نے الیکٹرانک میڈیا کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس کی وجہ سے زہریلے قلموں سے سیاہی بہہ سکتی ہے’. گارڈین اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ اپنے ساتھیوں کو ایک نجی ای-میل میں سروس نے کہا کہ ‘گورباچیو نے سوویت یونین سے نامعلومیت پر پابندی لگاتی تھی تاکے لوگوں کی ساکھ خراب ہونے سے بچ سکے. یہ نیچ حرکت اب ادھر پھر سے ابھر گئی ہے.’

میرے خیال میں ٹکنالوجی یا گورباچیو کے طرز کی حکومت کے زریعے نامعلوم لوگوں کی گفتگو و بحث کو روکنا ٹھیک نہیں ہے. سروس کو یقینی طور پر پتا ہے کے تاریخ کے دھارے میں نامعلوم افردا کی تنقید کی ایک بہت ضروری اور کارآمد جگہ ہے.

- Katie Engelhart

مزید پڑھئے:


تبصرے (2)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. ANONYMITY IN SCHOLARSHIP SHOULD BE AN EXCEPTION

    Katie Engelhart’s interesting discussion of the negative anonymous reviews of Rachel Polonsky’s and Robert Service’s works by their colleague Orlando Figes takes a curious turn at the end. Service, she writes, noted that Figes’s attitude reminded him of the Soviet practice of personal attacks. Engelhart, though, shrewdly remarks that Figes had the right to publish anonymous reviews, and she rejects Service’s view with the following argument: “Service surely understands that anonymous criticism has, in history, had its rightful place.” This argument is historically and morally untenable.

    Anonymous criticism certainly had a rightful place in history—as a weapon of the weak. When in times past, graffiti and anonymous pamphlets defied the aberrations of power, they were given credit. This is hardly the case here. Figes was not the weaker party: his works are praised as much as those of Polonsky and Service. Anonymity did not serve to shield him from the vengeance of academic power; rather, it was an instrument to improperly hit his professional rivals. From a historical angle, the argument is misplaced.

    Figes had the right to publish anonymous reviews, but as a citizen, not as a professional or as a scholar. As a professional, that is as a publicist, he had no good reason to remain anonymous. Journalism and anonymity go together only in the one widely recognized case of secrecy regarding a source that gives information in confidence. Figes did not protect such a source, he protected himself. As a scholar, that is as a historian, his position is even weaker. Scholarship and secrecy are each other’s enemies. Scholars have to strive for maximal transparency and accountability. Disclosure is the rule, confidentiality the exception. Peer review, if it wants to be anonymous, needs strong justification. In the Figes affair, no such justification was available, and the anonymity was in violation of scholarly deontology. Engelhart’s argument is correct at the level of citizenship only, but if the duties of professionalism and scholarship are taken into account—and they should, as the affair centers on publication and scholarly rivalry—it founders.

    Ironically, in apologizing and redressing the wrongs caused by his action, Figes seemed to accept the above reasoning more than Engelhart does.

    Antoon De Baets

  2. Did RJ Ellory learn nothing from Figes? Another author caught out for trashing colleagues and glorifying his own work on Amazon – http://goo.gl/gP0we

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی