ارم کوک اور فنڈا اسٹک ایک ایسی ڈاکومنٹری کے بارے میں لکھتے ہیں جس میں ترکش جمہوریت کے بانی کمال اتاترک کو ایک ‘بدمعاش شرابی’ کے طور پر دکھایا گیا اور جس کو ترکی کے اقدار پر ایک حملے کے طور پر لیا گیا.
کیس
نومبر ٢٠٠٨ میں ترکی کے جمہوریت کے بانی کمال اتاترک کی ٧٠ویں برسی کے موقع پر صحافی اور فلمساز کان دندار نے ایک ایسی ڈاکومنٹری بنانے کی ٹھانی جو کہ ‘اتاترک کی زندگی کی پوری کہانی بتاۓ جو کہ آج تک نا ترکی نا باقی دنیا کو سنائی گئی ہے’. ٹی وی پر ‘پوری کہانی’ دکھانے کا مطلب یہ تھا کہ اس میں اتاترک کی ایک انسان ہونے کے ناتے سارے رخ دکھاۓ جائیں گے جیسے کے ان کا عورتوں اور شراب کا شوق. حالانکہ کے کچھ دیکھنے والوں نے یہ کہا کہ اس فلم میں اتاترک کے بارے میں کچھ نیا نہیں بتایا گیا لیکن اس پر پر اس بنیاد پر بہت سخت تنقید کی گئی کہ اس میں ملک کے بانی کی توہین کی گئی ہے اور اسی لئے ‘ترکشنس’ کا بھی – جو کہ ترکی کے پینل کوڈ کی شق ٣٠١ ایک کے تحت ایک قابل سزا جرم ہے.
کچھ لوگوں نے عام لوگوں کو اس کو دیکھنے سے گریز کرنے کی تجویز دی اور یہ کہ بچوں کو ہر صورت اس کو دیکھنے سے روکنا چاہئے کیوں یہ ان کے ذہن میں اتاترک کے خیال کو خراب کرے گا. دوسروں نے کہا کہ یہ فلم ترکی کی سیکولرزم کے خلاف ایک سازش ہے کیوں کے کمالسٹ ایک ‘بدمعاش شرابی’ لیڈر کے لئے اپنی عقیدت کھو بیٹھیں گے. دو ڈاکٹروں نے کورٹ میں یہ کیس کر دیا کہ اس فلم پر پابندی لگ جانا چاہئے کیوں کہ اس میں اتاترک کو ایک چین سموکر کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کیوں کے ترکی میں فلم یا ٹی وی پر سگریٹ پیتے لوگ دکھانا قانون کے خلاف ہے. حالانکہ فلم پر پابندی نہیں لگائی گئی اور ہو سکتا ہے کیوں کای اس کو میڈیا میں اتنی توجہ ملی تھی اس کو دیکھنے لوگ جوق در جوق آئے. کان دندار کی ذاتی ویبسائٹ کو وزارت تعلیم کی درخواست پر سکولوں میں پابندی لگا دی گئی، اس کا جواز انہوں نے یہ دیا کے اس کا مواد طالب علموں اور اساتذہ کے لئے ‘غیر مناسب’ ہے.
reply report Report comment
For more insight to the debate, see the feature article written by Yonca Poyraz Dogan: http://www.todayszaman.com/newsDetail_getNewsById.action?load=detay&link=158863&bolum=100