ٹموتھی گارٹن ایش پراجکٹ کے پیچھے سوچ کی وضاحت کرتے ہیں، یہ بتاتے ہیں کے ویب سائٹ کس طرح کام کرتی ہے اور ہمیں دنیا بھر سے لوگوں کی شرکت کے حوالے سے کیا امیدیں ہیں.
روابط سے بھری دنیا میں آزادی اظہار راۓ
پہلے زمانے میں انسانی باتوں کی پہنچ صرف ادھر تک تھی جدھر تک وہ چیخ کر یا ہاتھ ہلا تک پہنچا سکے. جیسے جیسے ہم نے لکھنا، خاکے بنانا اور چھاپنا سیکھا اور اس کے بعد فون، ریڈیو اور ٹی وی جیسی نئی ایجادات کے ساتھ ہماری باتوں کی پہنچ کا دائرہ کروڑوں تک پہنچ گیا. اور اب انٹرنیٹ اور موبائل فون کے زریعے ہم چار ارب لوگوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور وہ چار ارب ہم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں. آزادی اظہار راۓ کا اس سے بہتر موقع پہلے کبھی نہیں موجود تھا.
لیکن اس روابط سے بھری دنیا میں پیڈوفائلوں (بچے بازوں)، تشدّد کی دھمکیوں اور ہمری نجی زندگی میں عمل دخل کرنے والوں کو پہلے سے کئی زیادہ مواقع مل گۓ ہیں. اس لئے ہمیں اس آزادی اظہار راۓ کے مؤثر استعمال کے بارے میں آپس میں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے. ہمارے لکنے، بولنے اور دکھانے پر کیا حدود ہونی چاہیئیں؟ قانونی طور پی کن چیزوں کو روکنا چاہیے اور کن چیزوں کو ہمارے اپنے اخلاقی معیارات پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ اور اس کا تعین کون کرے گا؟
یہاں پر مسئلہ صرف ان مواقع کا نہیں جو ٹکنالوجی اور مواصلات میں ترقی کی وجہ سے اب ہمارے پاس ہیں. اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کے مغربی ممالک میں بسنے والے لوگ ابھرتے ہوئے مشرق اور جنوب کے لوگوں کے ساتھ آزادی اظہار راۓ کے کن ضوابط پر اتفاق کر سکتے ہیں. ایک تیزی سے ابھاتی ہوئی پوسٹ-مغربی دنیا میں صرف حکومتیں ہی نہیں بلکے دنیا بھر کے لوگوں کی آپس میں بات چیت اور گفتگو بہت ضروری ہے. اس کھلی اور صاف بحث کے زریعے ہی اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ کیا چیز صرف مقامی سطح تک محدود رہ سکتی ہے اور کن چیزوں کو عالمی اقدار کا روپ لینا چاہیے. ساری حدود اور سرحدوں کے پار سن کر ہی ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کے ہم خود کیا سوچتے ہیں. ہم میں سے کچھ لوگ ان دلائل کو پہلی بار سن رہے ہوں گے. اور ان کو سنے بغیر ہم ایک مضبوط راۓ نہیں بنا سکتے.
اس بحث کو ایک مستقل ڈھانچہ فراہم کرنے کے لئے ہم نے اس کا انتظام آزادی اظہار راۓ کے دس اصولوں کے گرد کیا ہے. یہ دنیا بھر کے آزادی اظہار کے ماہرین، قانون دان، سیاسی سائنسدانوں، مذہبی عالموں، فلسفیوں، کارکنان اور صحافیوں کے درمیان بحث کا نچوڑ ہیں. اور ان پر ہم نے اپنی ٹیم میں موجود آکسفرڈ یونیورسٹی کے طالب علموں، جن میں ویب سائٹ کی ١٣ زبانیں بولنے والے لوگ شامل ہیں، کے ساتھ مل کر کئی گھنٹوں کی تفصیلی نظر ثانی کی ہے. ہم نے ان اصولوں کو چھوٹا، شفّاف اور تمام زبانوں میں آسان فہم بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے. (اس کام میں پیش آنی والی مشکلات کے بارے میں جاننے کے لئے ہمارے ‘لوسٹ ان ٹرانس لیشن’ بلاگ دیکھئے).
یہ ڈرافٹ اصول ایک دوسرے کی حمایت بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے میں اضافہ بھی. ان کو ایک آپس میں لنک ہوئے سیٹ کے طور پر پڑھنا ضروری ہے. ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کے یہ آزادی اظہار راۓ کے کچھ اصول ڈرافٹ کرنے کی پہلی کوشش ہے تاکے ایک ایسی دنیا میں جدھر ہم سب ایک دوسرے کے پڑوسی بنتے جا رہے ہیں ہم یہ احاطہ کر سکیں ہمیں کیا کہنے اور نا کہنے کی اجازت ہے اور ہمیں یہ بات کس طریقے سے کرنی چاہیے.
لوگ اس کو ضرور مغرب کا ایک استعماری منصوبہ قرار دیں گے اور ہم اس سے شدید اختلاف کرتے ہیں. یہ بات کے آزادی اظہار راۓ پہلی دفع مغربی دنیا میں قانون کے دائرے میں لایا گیا یہ کہیں سے نہیں کہتی کے اس کے اقدار دوسری ثقافتوں میں موجود نہیں یا ان سے متضاد ہیں. چوتھی صدی قبل مسیح میں چینی ریاستی بیانیہ میں ڈیوک زھاؤ نے لی بادشاہ سے کہا کہ ‘لوگوں کی زبان پی لگام دینا دریا کو بلاک کرنے سے بدتر ہے’.١٥٧٠ کی دہائی میں جب یورپی عوام مذہبی جنگوں میں ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے تھے تو ہندوستانی بادشاہ اکبر مختلف مذاہب کے علماء کے ساتھ بیٹھ کر ان کے درہموں کی اچھائیوں اور برائیوں پر بحث کر رہا تھا.
اسی طرح اگر ہم روشن خیالی کی عالمی پہنچ پر یقین رکھتے ہیں تو یہ وقت آگیا ہے کے ہم ایک صحیح معنوں میں عالمی معیارات کی طرف کام کریں. اس کا ایک طریقہ یہ ہے کے ہم ایسے اصولوں پر اتفاق قائم کریں جو کے تمام مردوں اور عورتوں پر بلا تفریق قومیت، مذہب اور ثقافتی ورثہ لاگو ہوں – اور پھر ان میں تبدیلیوں، چیلنجوں اور نظر ثانی کے لئے پوری طرح تیار ہوں.
اس ویب سائٹ کا ڈھانچہ کس طرح کا ہے؟
ہر ڈرافٹ اصول کے ساتھ ایک وضاحتی مضمون ہے جس میں میں نے اس میں موجود مسائل کے بارے میں کچھ تفصیلات بیان کی ہیں. اس مضمون میں اس اصول سے متعلقہ مثالیں اور دوسرے ذرائع کے لنک موجود ہیں. اس کے ساتھ ساتھ یہ بحث کے لئے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے. میرا زور ‘کچھ’ کے لفظ پر ہے. ان میں سے کئی مسائل پر صدیوں سے بہت ماہرانہ سیاسی، قانونی اور فلسفیانہ بحث چل رہی ہے. ایک ایسی دنیا میں جو کے الکٹرانک مواصلات اور بڑے پیمانے پر ہجرت سے بلکل بدل چکی ہے پرانے سوال نے طریقوں سے کئے جا رہے ہیں. ہر موضوع پر کہنے کو بہت سی باتیں ہیں. لیکن یہ صرف میری طرف سے کچھ نجی تعارف ہیں جو کے ایک دانشمندانہ بحث شروع کرنے میں مدد دیں.
سب سے ضروری ہمارے اپنے طالبعلموں کی لکھی ہونے مطالعتی کیس ہیں جو کے ان اصولوں کو دنیا بھر میں اصل واقعات سے ملاتے ہیں. ان مثالوں کے بغیر یہ اصول بلکل تجدیدی لگتے ہیں. ہر انفرادی کیس میں ان کا مطلب معلوم کرنے کے بعد ہی ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان اصولوں کا مطلب کیا ہے. اور آپ کی مدد سے جس طرح یہ بحث آگے بڑھے گی مطالعتی کیسوں فہرست بھی بڑھتی جاۓ گی.
ہر اصول کا آغاز ‘ہم’ کے لفظ سے ہوتا ہے. یہ ‘ہم’ کون ہے؟ اس سیاق و سباق میں ‘ہم’ سے مراد اس دنیا اور نیٹ کے شہری و باشندے ہیں. تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ‘ہم’ سے مراد آپ خود ہیں. روایتی طور پر آزادی اظہار راۓ پر مباحث کی توجہ اس پر رہی ہے کے ریاست کو قانون کے مطابق کس چیز کی اجازت دینی چاہیے اور کس کی نہیں. اور آزادی اظہار راۓ کے لئے مہم چلانے والے کئی گروہوں کی توجہ بھی اسی پہلو پر ہے. ہمارے پراجکٹ نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن ی ہماری توجہ کا سب سے اہم مرکز نہیں.
اس کے برعکس ہم ان بنیادی خیالات اور معاشرتی معیارات تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کے عام لوگ اس روابط سے بھری دنیا میں اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کرنے کے لئے استعمال کریں. ان میں سے کچھ کا ریاستوں، عدالتوں، بین الاقوامی معاہدوں اور اداروں کی تفصیلی قانونی اور تکنیکی زبان میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے. لیکن ان معیارات کی عکاسی سوشل میڈیا کمیونٹی کے معیارات، میڈیا کے ایڈیٹوریل معیارات اور ہماری ان گنت انفرادی گفت و شنید میں ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے.
تو یہ وہ ہدایت ہیں جن کی پیروی کا ہم اپنے تگنے کردار میں ارادہ رکھتے ہیں:شہری کے طور پر اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالنا؛ نیٹ کے شہریوں کے طور پر ہمارے استعمال پر انحصار کرنے والے میڈیا اور مواصلاتی اداروں پر دباؤ ڈالنا؛ اور انسان ہونے کے ناطے دوسرے افراد سے گفت و شنید کے ذریعے.
اس بحث کو بہتر بنانے کے لئے ہم مختلف جگہوں سے تعلق اور نقطۂ نذر رکھنے والے افراد کو شامل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے. ہمارے کچھ ماہرین کافی مشہور ہونگے اور کچھ ان سے کم. ہم آپ کو ان کے تبصرات اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے منعقد کئے ہوئے یا دنیا بھر میں شرکت کی ہوئی تقریبات کی آڈیو اور ویڈیو فراہم کریں گے. ہم آزادی اظہار راۓ پر اثر کرنے والے حالیہ واقعات اور پیشرفتیوں کے اوپر بھی تبصرات کریں گے.
آپ کس طرح شرکت کر ستے ہیں
اس پراجکٹ کا دل و جان آپ ہیں یعنی کے اس دنیا اور نیٹ کے شہری. ‘آزادی اظہار راۓ’ پراجکٹ کا مقصد مہارت اور کھلے انداز کا ملاپ ہے. ایک ماہرین کا گروہ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے علمی وسائل اس پراجکٹ کی مدد کر رہے ہیں – لیکن ماہرانہ راۓ اور کھلی بات ضرروی نہیں کے علیحدہ یا متضاد چیزیں ہوں. ایک بڑے مجمعے سے راۓ لینا کبھی کبھار ایک انفرادی تحقیق کار سے بہتر اور زیادہ مستند جوابات دے سکتا ہے. اس کے علاوہ کیوں کے ہم ایسے اصول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن پر مختلف ممالک، ثقافتوں، مذاہب، عقائد اور سیاسی نظریات کے لوگ اتفاق کر سکیں، ہمارے لئے مختلف راۓ کو سننا اور بھی ضروری ہے.
ہر روز دن کے بہت بڑے حصّے میں ہماری آکسفرڈ گریجویٹوں کی ٹیم کا کم از کم ایک فرد ہماری آن لائن ایڈیٹر مریم اومیدی کی نگرانی میں براہ راست آپ کی شراکت پر نظر رکھے گا. آپ کے ‘میزبان’ کے طور پر یہ ابھرنے والے مباحثی مکالمات میں حصّہ لیں گے. ہمیں امید ہے کے آگے بڑھتے ہوئے آپ کو یہ محسوس ہو گا کہ آپ ایک گفتگو کا حصّہ ہیں جس میں اس پراجکٹ کے کی بین الاقوامی ٹیم (جو کے اکثر آپس میں بھی متفق نہیں ہوتے!) اور دوسرے تجزیہ نگار شامل ہیں. ان میں مختلف نظریات اور ثقافتوں کے حامل ممتاز دانشور اور ماہرین شامل ہیں. وقتا فوقتا ہمارے ایڈیٹوریل میزبان مختلف معلوماتی اور توجہ آمیز تبصرات کا انتخاب کر کے ان پر مباحثی مکالمات شروع کریں گے.
ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ اپنی ماہرانہ معلومات اور تجربہ کی بنیاد پر ہمارے مطالعتی کیس کے صفحے پر فارم بھر کر مزید کیس تجویز کریں. کچھ اے کے بعد ہم ہو سکتا ہے کے اب تک کی بحث پر مبنی اصولوں کے نظر ثانی شدہ یا متبادل ورژن پیش کریں.
‘کیا بچا ہے؟’ میں ہم چاہتے ہیں کے آپ ہمیں ان اصولوں کے بارے میں بتاۓ جو آپ کے مطابق اس فہرست میں ہونے چاہیئیں یا ان اصولوں کے بارے میں مختلف طرح سوچنے کے طریقے بتائیں. کئی سارے موضوع ان دس اصولوں کی فہرست میں نہیں ہیں جیسے کے فحش مواد اور خاص طور پر بچوں سے متعلق فحش مواد، اشتہار، علمی پراپرٹی وغیرہ. کیا ان کو ادھر ہونا چاہیئے تھا؟ وو کیا چیز ہے جس کے اپنے آپ پر خود ایک اصول ہونا چاہیئے؟
اوپر بار سے ایک ڈیفالٹ زبان کا انتخاب کرنے کے موقعے کا فائدہ اٹھائیے. اس ویب سائٹ پر پیش ہونے والی ١٣ زبانیں دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی ٨٠ فیصد آبادی کی عکاسی کرتی ہیں. اس بارے میں اور یہ کے ترجمہ کیسے کیا جاتا ہے ہمارا زبانوں کا صفحہ دیکھئیے. اس بات پر ضرور غور کیجئے کے نیا مواد پہلے انگریزی میں پوسٹ کیا جاۓ گا اور اس کا آپ کی زبان میں ترجمہ رونما ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا. ویڈیو اور آڈیو عام طور پر اپنی اصلی زبان میں ہی ہو گی، جب کے بعض صورتوں میں انگریزی سب ٹائٹل موجود ہونگے.
اگر آپ ووٹ یا تبصرہ کرنا چاہتے ہیں (جیسے کے ہم چاہتے ہیں!) تو ہم آپ سے ایک نہایت سادہ اندراجی عمل سے گزرنے کی گزارش کریں گے. ہماری ترجیح یہ ہی ہے کے لوگ اپنے اصل ناموں کے ذریعے اپنی شناخت کریں. ہمارا اس بات پر یقین ہے کہ کسی بھی آزاد ملک میں یہ ایک مہذبانہ بحث کا عام طریقہ ہونا چاہئے. یہ ضرور بہترہے کہ ہم دونوں کو پتا ہو کہ ہم کس سے بات کر رہے ہیں. لیکن ہمیں پتا ہے کے ایسے کئی حالات ہیں جن میں لوگ ایک تخلص استعمال کرنے کو ترجیح دیں گے جیسے کے اگر وہ ایک غیر آزاد ملک میں رہ رہے ہوں یا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خاندان، آجر یا کمیونٹی کے بارے میں کھل کر بات کرنا چاہتے ہوں. افسوسناک طور پر اس طرح کے حالات دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کے لئے ایک حقیقت ہیں. یہ چوائس پھر آپ کی ہے. اصل اور تخلصی ناموں کے مسئلے پرادھر بحث کیجئے.
یہ کہے بغیر عیاں ہے کے یہ ایک تجربہ ہے. ہماری امید ہے کہ اس سے کم از کم ایک دلچسپ، معلوماتی اور ایک حقیقی طور پر کثیر ثقافتی اور لسانی بحث برآمد ہو گی. ہمیں نئے دلچسپ مطالعتی کیس اور نئے یا نذر ثانی شدہ اصولوں کی تجاویز ملنے کی امید ہے. ہماری امید ہے کہ ہم یہ دریافت کر پائیں گے کے دنیا بھر سے ہمارے صارفین کن چیزوں پر اتفاق کرتے نذر آتے ہیں اور یہ کہ ہم اختلاف کے سب سے اہم نکات پر مزید روشنی ڈال سکیں.
اس ویب سائٹ پر ہونے والی بحث آکسفرڈ یونیورسٹی کی باڈلین لائبریری کے ڈیجیٹل آرکائیو میں ریکارڈ کی جاۓ گی تاکے مستقبل کے پڑھنے والے یہ دیکھ پائیں کہ بحث کا ہفتہ بہ ہفتہ ارتقا کس طرح اور کس سمت میں ہوا. ابتدائی طور پر بحث پورے زور و شور سے چھ مہینے تک چلے گی. اس کے بعد ہم ‘آزادی اظہار راۓ’ ویب سائٹ کو ایک صارف دوستانہ آن لائن فورم بنا دیں گے. اس کے بعد کے لئے آپ کی کیا راۓ ہے؟ ہمیں ادھر بتائیے. اس ویب سائٹ باقی بہت سی چیزوں کی طرح اس کے مستقبل کا انحصار بھی آپ پر ہے.
ٹموتھی گارٹن ایش
print Print picture_as_pdf PDF