ترکی میں ممانعت نا پختگی کو کس طرح مزید رائج کرتی ہے

سبانکی یونیورسٹی کی پروفیسر آآئیسے کادیوگلو ترکی میں پرورش پانے کے تجربے کا ذکر کرتی ہیں جہاں قانونی ممانعت نے شہریوں کو ناپختگی کا شکار کر دیا ہے

ممانعت کے سحر میں پرورش پانا ایک معذور کر دینے والا تجربہ ہے. ناگزیر جسمانی پرورش کے باوجود یہ ذہن کو ایک  بچپنے کی کیفیت میں قید کر سکتا ہے. اپنی کتاب سمجھداری کی زندگی یا انسانی ترقی کے مراحل میں ہسپانوی-امریکی فلسفی جارج سنتیانا کہتے ہیں: “ترقی تبدیلی کے بجاۓ برقرار رکھنے کی صلاحیت پر مشتمل ہے. جب تبدیلی مکمل ہو تو کسی کی مزید بہتری ممکن نہیں اور ممکنہ بہتری کی کسی سمت کا تعین بھی نہیں ہوتا – اور جب تجربہ برقرار نہ رکھا جاۓ، جیسے وحشیوں میں تو بچپنا مستقل ہوجاتا ہے.” مجھے ان الفاظ کی اہمیت کا اندازہ تب ہوا جب میں امریکہ میں گریجویٹ اسکول میں داخل ایک بالغ تھی.

میں ایک ایسے ترکی میں پروان چڑھی جہاں رائج نظامِ تعلیم میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے سلیبس میں کچھ تاریخی حقائق کو اس خطرے کے تحت پوشیدہ رکھا جاتا ہے کہ کہیں ” ریاست کی اپنے ملک اور قوم سے ناقابل تقسیم اکائ” کو نقصان ںہ پہنچے، اور اس خوف کا اظہار ترکی کے موجودہ آئین میں متعدد جگہوں پر کیا گیا ہے. شاید ترکی کا قومی ترانہ ریاست اور قوم کے اتحاد کو ممکنہ نقصان کے خوف کی بہترین عکاسی کرتا ہے، جو ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے: “ڈرو نہیں” جب ممنووعات کو خوف تقویت دے تو تجربوں کو برقرار رکھنے کی قوتیں کمزور پڑ جاتی ہیں. ایک ایسے نظام تعلیم سے گزر کر جو جھوٹے تاریخی حقائق یا پھر سناٹے پر مشتمل ہو،اس خود ساختہ بچپنے سے فرار ممکن نہیں.

پہلے پہل جب میرا سامنا آرمینی- امریکی طلباء سے ہوا جنہوں نے ایک جیتے جاگتے” ترک” کے طور پر میرا معائینہ کیا، تو مجھے اپنی ذات میں ان کی دلچسپی سمجھ نہ آئی. جب ہم نے گفتگو کا آغاز کیا تو میں نے خلافت عثمانیہ کے زوال کے دوران آرمنیوں کے المیے کے بارے میں مطالعے کا آغاز کیا. مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی اور سیّارے سے ہوں! میں قومیت پسند ممنوعات کے سحر میں پلی بڑھی تھی اور مجھے کچھ مسائل سے بے خبر رکھا گیا تھا.  یقیناً علم کو برقرار رکھے بغیر سطحی تبدیلی سے ترقی میں کمی واقع ہوتی ہے. ممانعت ناپختگی کو فروغ دیتی ہے.

ترکی میں “ریاست اور قوم کی اکائی” کے تحفظ سے متعلق ممانعت عام ہے. ایسے بہت سے قانون بھی موجود ہیں جو ان ممنوعات کی خلاف ورزی کو جرم قرار دیتے ہیں. جب ممانعت کو قانون مظبوط کرے تو اکثر اوقات شہریوں کے ذہن (اور بہت باران کے جسم بھی) مقیّد ہو جاتے ہیں. ایک ایسی ممانعت ترکی رپبلک کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک سے متعلق ہے. ترکی میں اتاترک سے متعلق جرائم کی خلاف قانون موجود ہے. اتاترک کی یاد یا بتوں کی توہین کرنا جرم ہے. ایک اور ممانعت مسلح افواج کی تقدیس سےمتعلق ہے. اسے لوگوں کو لازمی فوجی سروس سے بددل کرنے کے خلاف قانون سے برقرار رکھا جاتا ہے. اس قانون کے تحت بہت سے مصنفین اور باضمیر معترضین نے فوجداری الزامات کا سامنا کیا ہے. رائج ممنوعات میں “ترکیت” بھی شامل ہے اور “ترکیت” کی توہین کے خلاف قانون موجود ہے. آرمینی-ترکی اخبار نویس ھرینٹ ڈنک کو ایک مضمون لکھنے پر”ترکیت” کی توہین کا مقدمہ چلایا گیا ور مجرم قرار دیا گیا. باوجود مقامی فوجداری کورٹ میں پیش کردہ  رپورٹ کے جس میں ماہرین نے ان الزامات کی تردید کی تھی. اس فیصلے نے فساد کی ایسی آگ کو ہوا دی جس کا خاتمہ بالاخر 2007 میں اس کے قتل پر ہوا.

ترکی رپبلک میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر رائج ممانعت ” ریاست کی اپنے ملک اور قوم سے ناقابل تقسیم اکائ” سے متعلق ہے. ترکی ریاست کی ایک متحد قوم کے واہمے کو برقرار رکھنے کی مسلسل کوششوں نے کرد شہریوں کی شناخت سے انکار کی صورت اختیار کی ہے. ١٩٨٠ کی فوجی بغاوت کے بعد کرد زبان بولنے پر پابندی عائد کر دی گئی. ١٩٩٠ کی خفیہ کاروائی کے دوران ہزاروں کرد ہلاک یا “گمشدہ” ہو گئے. وسیع ترعوامی بحث اور سوچ بچار کے بغیر اس اندھیرے ماضی کے زخموں کا علاج ممکن نہیں.

قانون کے ذریعے رائج ممنووعات سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے سامنے بیڑیوں کی مانند ہیں. عوامی بحث اور غور و غوض کے دائرے مستحکم کر کے جمہوری اقدار کو مضبوط کیا جا سکتا ہے اور ممنوعات کے سحر سے رہائی ممکن ہے. لہٰذا، ہاں، “ہم علم کی ترسیل اور بحث میں کسی ممانعت کی اجازت نہیں دیتے”، کیونکہ ہم حالت ناپختگی میں مقیّد نہیں رہنا چاہتے اور پوری کوشش سے معقول انسان ہونے کی صلاحیت پر پورا اترنا چاہتے ہیں.

یہ مضمون گارڈین کمینٹ نیٹ ورک پردوبارہ شائع کیا گیا تھا.

مزید پڑھئے:


تبصرے (1)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. We’re students from an IB language/literature class studying hate speech, taboo and censorship. You raise valid points about the implications of ‘taboo’ language, however we believe there’s a hazy line drawn between the concepts of ‘taboo’ and ‘censorship’.

    As proposed by Allan Burridge in his book Forbidden Words: Taboo and the Censoring of Language, “Taboos arise out of social constraints on the individual’s behaviour where it can cause discomfort, harm or injury,” a taboo encompasses more than just censorship of a certain concept. It implies socio-cultural discrimination. For example, although gay marriage is illegal in 29 states in the US according to theguardian.com, the driving force behind why same-sex marriage discrimination exists is because of the social enforcement in the region, generally due to religion or culture as opposed to governmental hierarchy. This is especially apparent in the southeastern states, where legal gay marriage in all of the 13 states is either banned or has no clear law.

    On the other hand, we define government censorship as the explicit expunging of information, generally with the intent of framing the government in a positive way to keep citizens loyal to their country. During the opening ceremony of the winter Olympics one of the Olympic rings failed to operate correctly. However, the live airing of this event was concealed in Russia (and only within Russia) with a clip from a rehearsal. Producers claim “it was critical to preserve the Olympic ring imagery, even if it meant showing fake footage. President Vladimir Putin has repeatedly emphasized the importance of showcasing Russia flawlessly to the world during the Olympics.” (Time.com). The intent of censorship, such as this example, is different to that of taboo.

    Assuming the reason the Turkish-Armenian conflict was expunged from the history books of many Turkish pupils is to ‘save face’ for the government is one thing; the word ‘taboo’ which is used in this piece is interesting as it implies a social aversion beyond the realm of government censorship. To an extent censoring or essentially withholding information from students can cause them to embrace false and potentially discriminating information, which is what we see happening here with the Armenian-Turkish conflict. Your piece tells us there’s no distinction between taboo and censorship, and this is what intrigues us – in this case the Turkish government, by classifying the Armenian-Turkish conflict as a taboo as well as censoring the subject, is going beyond ‘saving face’ for the government – it degrades Armenians and doesn’t adequately inform Turkish children about their country’s past.

    We agree that things have been expunged from Turkish history, but to be fair, to varying degrees it happens all over the world. It’s a perfectly valid example, but it’s an overworked example; Antoon De Baets’ paper Censorship of History Textbooks, copious examples are given concerning countries from Pakistan to Belgium, from Tibet to Russia, Uruguay, Libya, Indonesia, the Netherlands, and so forth. Singling out the Turkish-Armenian conflict doesn’t indicate how extensive censorship is, and has been, for centuries.

    The integration of taboo and censorship can prove dangerous. Hrant Dink was found guilty for insulting “Turkishness”; Dink’s criminal charges were imposed by the government, but his death was caused by a Turkish civilian driven by the taboo that being critical of Turkish culture is socially unacceptable.

    As illustrated in the example above, what is troubling about the assimilation of taboo and censorship is that, as stated in the article, it causes perpetual immaturity and ignorance; these consequences are difficult and time-consuming to expunge. Acknowledgement of differences between taboo and censorship can be key in understanding critical issues.

    Are we correct in stating that censorship and taboo have melted into one in Turkey? How are the definitions we’ve proposed different from those you accept?

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی