ہندوستان میں نصابی کتابوں کا کارٹون افیئر

مئی ٢٠١٢ میں ہندوستان کی پارلیمنٹ نے سکولوں کی نصابی کتابوں کی ایک ایسی کھیپ کو ہٹا لیا جن میں ایک ایسا سیاسی کارٹون موجود تھا جس کو کئی ایم پیوں نے بے عزتی کا باعث سمجھا. انٹون دے بیٹس اس بارے میں بات کرتے ہیں کے کیا عزت، حقوق اور عام اخلاقیات کو تعلیمی سلسلے میں آزادی اظہار راۓ پر فوقیت حاصل ہونی چاہیئے؟

مئی ٢٠١٢ میں ہندوستان میں انسانی رسورس ڈیویلپمنٹ کے وزیر کپل سیبال نے تعلیمی تربیت اور تحقیق کی قومی کونسل (این سی ای آر ٹی) کو سیکنڈری لیول میں پڑھائی جانے والی پولیٹکل سائنس کی ایک کتاب (جو کہ ٢٠٠٦ میں شائع ہوئی تھی) نصاب سے ہٹانے کا اس وقت حکم دیا جب اس کی بنا پر پارلیمنٹ کے دونوں اداروں میں ایک خرام مچ گیا. پارلیمانی ممبران کو کتاب میں کارٹونسٹ شنکر کا ١٩٤٩ ایک کارٹون مل گیا جس میں دالتوں (روایتی طور پر ‘اچھوت’) اور ان کے قائد بھمراؤ امبیدکر کا مذاق اڑایا گیا تھا. کارٹون میں اس وقت کے وزیر اعزم جواہرلال نہرو کو امیدکر کا ایک کوڑے کے ساتھ پیچھا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ امبیدکر ایک ‘دستور’ نامی گھونگھے پر بیٹھے ہیں. یہ اس آہستہ رفتار کی طرف اشارہ تھا جس سے آزادی کے بعد ہندستان کا دستور تیّار کیا جا رہا تھا. جب کارٹون کی تنقید تمام پارٹیوں نے کرنا شروع کی اور کراب کو نصاب سے ہٹا دیا گیا تو نصابی کتابوں کی کمیٹی کے دو اہم مشیران (سماجیات کے ماہرین یوگندرا یادو اور سوہاس پلشکر) نے احتجاج میں استعفی دے دیا. اگلے دن پلشکر کے یونیرسٹی میں دفتر پر حملہ کر دیا گیا. پونے، مہاراشترا میں مقیم ہندستانی رپبلکن پینتھر پارٹی نامی دالت کارکنان نے حملے کی ذمداری قبول کر لی.

سیبال نے یادو اور پلشکر کے استعفی کا خیر مقدم کیا اور پارلیمنٹ میں نصابی کتاب کی غلطی پر معافی مانگی. انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘ہم نہیں سمجھتے کے نصابی کتابیں وو ذریعہ ہیں جن سے متاثر دماغوں میں ایسے خیالات (کارٹون) سے ان پر اثر کیا جاۓ….. مجھے اس کتاب میں کئی کارٹون بہت توہین آمیز لگے.’ ان نصابی کتابوں کے پورے سلسلے پر تقسیم سے پابندی لگادی گئی اور اس کے بعد ١٥٠ مزید کارٹونوں کو توہین آمیز کی  لسٹ میں ڈال دیا گیا.

ہمیں اس معاملے پر کس طرح تبصرہ کرنا چاہیئے؟ کارٹون آزادی اظہار راۓ کا ایک طریقہ ہے. ان پر حدود لگانے کای کسی بھی اقدام ایک محدود اور بین الاقوامی طور پر مانے گئے اصولوں کے موازنے میں بیلنس کرنا چاہئے. بین الاقوامی معاہدہ براۓ سول اور سیاسی حقوق کا دفع ١٩ کہتا ہے کے ‘دوسروں کے حقوق و آزادی کا خیال، پبلک آرڈر، اخلاقیات یا صحت اور قومی سلامتی’ کو  آزادی اظہار راۓ پر فوقیت حاصل ہے.

پہلے تو ‘دوسروں کی عزت’ کے بارے میں بات کرتے ہیں. کیا یہ ممکن ہے کے دالت قائد امبیدکر کی ساکھ پر کارٹون کے شائع ہونے سے کوئی کمی آئی ہے؟ امبیدکر کو ایک مشہور آدمی ہونے کے اصول کے بارے میں بہت اچھی طرح پتا تھا جو یہ کہتا ہے کہ سیاستدانوں کو عام شہریوں سے زیادہ تنقید برداشت کرنے کا عادی ہونا چاہئے. انہوں نے ١٩٤٩ میں کارٹون کے شائع ہونے کے وقت اور نا ہی کبھی ١٩٥٦ میں اپنی رحلت سے پہلے شنکر پر ان کی بدنامی کرنے کا مقدمہ چلایا.

اور پھر ‘دوسروں کے حقوق’ ہیں. ‘دوسروں کے حقوق’ میں ‘دوسروں’ کے تین مختلف مطلب ہو سکتے ہیں: امبیدکر کے قریبی رشتےدار، عام شہری اور کارٹون کو دیکھنے والے بچے. رپورٹس سے یہ کہیں نہیں ظاہر ہوتا کہ امبیدکر کے رشتےداروں نے کبھی بھی کارٹون کے خلاف کوئی احتجاج کیا ہو یا اس کی وجہ سے ہرجانے کا کیس کیا ہے. دوسرے گروہ، یعنی کہ عام شہری، کی اس معاملے میں کوئی راۓ نہیں ہے. اگر ان کو اس میں کوئی دلچسپی ہے بھی تو یہ اسکارٹون کو سنسر کرنے کا جواز نہیں دیتا کو کہ سیاسی کارٹون عام بحث کو فروہ دیتے ہیں اور اس لئے تحفظ کے درکار ہیں.

تیسرے گروہ، یعنی بچوں اور نوجوانوں، کے حقوق ایک مختلف معاملہ ہیں. کیوں کہ اس کے حقوق ہو سکتا ہے ‘عام اخلاقیات’ کے ساتھ مشابہت رکھتے ہوں، اس لئے میں ان پر ساتھ ہی غور کروں گا. کیا یہ کہا جا سکتا ہے کے کارٹون کو قانونی طور پر اخبارات اور تاریخی کتابوں میں چھاپا جا سکتا ہے لیکن نصابی تاریخ کی کتابوں نہیں کیوں کے بچوں کے یہ کارٹون دکھانا ان کے حقوق کو پامال کرتا ہے اور ‘عام اخلاقیات’ کو خطرہ پیش کرتا ہے؟ وزیر سیبال یہ ہی سوچتے ہیں. یہ بات ٹھیک ہے کہ نصابی کتابوں کے مصنفین کو اس قسم کی علمی آزادی دستیاب نہیں ہوتی جو کہ تعلیمی اداروں میں تاریخدانوں کو ہوتی ہے، کیوں کو نصابی مصنفین پر علمی گائیڈ لائنز کی حدود ہوتی ہے. تعلیمی حکام ان ہدایات کے ڈھانچے پر فیصلہ کرتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد ماہرین گارنٹی کرتے ہیں. اپنے فرائض صحیح طور پر انجام دینے کے لئے نصابی کتابوں کے مصنفین اور مشیروں کو ایک حد تک آزادی ضرور ہونی چاہیئے.

اپنی فطری نوعیت کے باعث کارٹونوں کو تشریح کی ضرورت ہوتی ہے. یہ خاص طور پر ان کارٹونوں پر لاگو ہوتا ہے جو کہ قومی سیاق و سباق میں حساس ہوتے (یا سمجھے جاتے) ہیں. ماہرین کو یہ بات ضرور مدنظر رکھنی چاہئے کہ ان کی نصابی کتابوں میں مواد اس طریقے سے پیش کیا جاۓ کہ طالب علم ہر قسم کی معلومات کو اس کے صحیح تاریخی سیاق و سباق میں سمجھ سکیں. یہ ہی کیس امبیدکر کے کارٹون کے ساتھ تھا، جس کو اصل ذرائع سے دوسرے تصویری مواد اور ادراک کے ساتھ تنقیدی سوالات کے ساتھ پیش کیا گیا تھا. کتاب میں دلتوں کے مسائل پر کھل کر بات کی گئی تھی اور امبیدکر کی سیاسی کامیابیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی خاص طور پر ان کی آئین تیّار کرنے میں حصّہ. کارٹون بالغ زندگی کا ایک ضروری حصہ ہیں. یہ ضروری ہے کہ طالب علم ان کو صحیح اور تنقیدی طور پر دیکھنا اور تشریح کرنا سیکھیں.

مختصرا آزادی اظہار راۓ پر حدود ڈالنے کے تینوں جوائز میں سے کوئی بھی کارٹون کیس میں لاگو نہیں ہوتے. متنازعہ کارٹون والی نصابی کتاب کو ہٹانے کا فیصلہ مصنفین اور اس کے ساتھ ساتھ کتابوں میں مدد کرنے والے مشیران کے آزادی اظہار راۓ کے خلاف تھا. اور یہ خلاف ورزی سیاسی سنسرشپ کے زمرے میں آتی ہے.

اس تجزیے سے ہم کئی نتائج نکال سکتے ہیں. پلشکر کے آفس پر حملے ایک انتہائی افسوسناک بات تھی. یادو اور پلشکر کا اپنی اپنی پوزیشنوں سے (نصابی کتابوں کی کمیٹی کے اعلیٰ مشیر) مستعفی ہونا ان کے ساتھ ہونے والے رویے کے خلاف ایک بلکل جائز طریقہ احتجاج تھا. بین الاقوامی انسانی حقوق کے زاویے سے پارلیمنٹ کے ممبران کی طرف سے کارٹونوں پر سخت تنقید ایک قابل اعتراض مداخلت تھی. یہ کارٹون، دوسروں ایسے کارٹونوں کے ساتھ، کتابوں میں رہنا چاہئے جب تک کہ اس کو احتیاط اور جائز تنقید کے ساتھ پیش کیا جاۓ. یادو اور پلشکر کو اپنے فرائض دوبارہ شروع کرنے کا جلد از جلد موقع ملنا چاہئے.

انٹون دے بیٹس یونیورسٹی آف گرونگین میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں

مزید پڑھئے:


تبصرے (1)

گوگل کے ترجمے آٹومیٹک مشین ترجمے فراہم نہیں کرتے. ان سے آپ کو کہنے والے کی بات کا لب لباب تو پتا لگ سکتا ہے لیکن یہ آپ کو بات کا بلکل درست ترجمہ بشمول اس کی پیچیدگیوں کے نہیں دے سکتا.ان ترجموں کو پڑھتے وقت آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے

  1. This time it’s not a specific cartoon, but a cartoonist under fire –
    http://www.ifex.org/india/2012/09/05/trivedi_arrest_warrant/

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی