عرب دنیا کو کمیونٹی ریڈیو کی ضرورت کیوں ہے

گرچے سوشل میڈیا اورسیٹلائیٹ ٹیلی وثن نے عرب ممالک میں احتجاج کے دوران ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے داؤد کتاب کہتے ہیں کہ خطے میں کسی بھی قسم کی مثبت تبدیلی کے لئے کمیونٹی ریڈیو قائم کرنا بہت ضروری ہے.

وجوہات اور اثرات کی تمام مباحث کے باوجود یہ بات عیاں ہے کہ تیونس میں شروع ہونے والے وہ احتجاجات (جو دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا میں پھیل گئے) کے لئے ایک چیز ضروری تھی: جمع ہونے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی. عرب شہروں اور دیہاتوں میں جمع ہونے والے نوجوانوں کے ہوم نے آمرانہ حکمرانوں کو ان کے جمود کے خلاف اور تبدیلی کا مطالبہ کرنے کے حق کو پہچاننے پر مجبور کردیا. کچھ ممالک میں تو اس حق کی پہچان کرانا آسان پایا گیا اور جلد ہی ہو گیا لیکن کچھ ممالک میں یہ ایک مشکل، خطرناک اور جان لیوا کام ثابت ہوا ہے. لیکن پھر بھی احتجاجیوں نے طاقتور کے خلاف اپنے حیالات کا اظہار کرنے کے حق کو تلف نہیں کیا ہے.

حالانکہ مطالبات کو روایتی ذرائع (جیسے کے منہ سے پھیلنے والی بات، احتجاجات، بیٹھکیں اور تی وی چینلوں کے زریعے نشریات) کے زریعے پھیلایا گیا ہے، ہم نے اس معاملے میں نئے تخلیقی طریقے بھی دیکھے. لیبیا میں رنگ برنگی گرافیٹی سے لے کر مصر اور شام میں سوشل میڈیا تک نوجوان عربوں نے اپنا آواز کو دور تک پہنچانے کے لئے نت نئے طریقے استمعال کئے.

لیکن ایک زریعہ جو ان احتجاجیوں نہیں استمعال کیا ہے وہ ریڈیو ہے.

دوسرے روایتی ذرائع مواصلات کی طرح ریڈیو کی رحلت کا اعلان کئی دفع کیا جا چکا ہے لیکن اس کی بار بار کسی نئے سیاق و سباق اور استمعال میں بحالی ہو جاتی ہے.ہلانکے باقی دنیا میں کئی آمرانہ ریاستوں سمیت نجی اور کمیونٹی ریڈیو کو کافی برداشت کیا گا ہے، عرب ممالک میں، بشمول وہ جو کہ زیادہ کھلی ہیں، ریڈیو لائسنسوں کو حکومتی اداروں اور اشرافیہ کے کاروباری حلقوں تک محدود رکھا گیا ہے.

اس اینٹی-ریڈیو پالیسی کے پیچھے تاریخی وجوہات ہیں. ریڈیو جس وقت اپنے سنہری دور سے گزر رہا تھا، پوسٹ-نو آبادیاتی نظام کی عرب دنیا میں بار بار انقلاب اور بغاوات برپا ہو رہی تھیں جن کے زریعے فجی جرنیل صدارتی محلات کے ساتھ ساتھ سرکاری ریڈیو سٹیشنوں پر بھی قبضہ کر لیتے تھے. نئے حکمران کا سب سے پہلا اعلان ریڈیو ہی کے زریعے ہوتا تھا اور باقی سرکاری ادارے فورا” ہی اس ک اثر و رسوخ میں آجاتے. یہ فوجی آمر جو ریڈیو نیٹورک پر قبضہ کر کے طاقت میں آئے تھی ظاہر سی بار ہے دوسروں کو اس کے استمعال اور اس سے ان کی طاقت کو چیلنج کرنے سے روکتے تھے. عرب ممالک میں ریڈیو سٹیشنوں کو گھر کرنے والی عمارتیں اکثر ملک میں سب سے زیادہ پہرے والی عمارتیں بن جاتی تھی. ذرائع ابلاغ کے ادارے

ملٹری انستالیشنیں بن گئیں جن میں داخلے کے لئے متعدد جسمانی چیک اور شناختی فارم چاہیے ہوتے.

ان سٹیشنوں کے زریعے براڈکاسٹ ہونے پروگرام بھی پوری طرح وفاقی حکومت کے پر اثر ہوتے. ریڈیو یا ٹی وی ڈائرکٹر کو ایک سیدھی فون لائن صدر یا بادشاہ کے صدر سے کنیکٹ کرتی تھی. ١٩٩٠ اور ٢٠٠٠ کی دہائی میں سیٹلائیٹ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے پھیلنے کے باوجود ریڈیو لائسنس حکمرانوں کے سب سے قریبی اور وفادار دوستوں تک ہی محدود رہے. جب نجی لائسنس دیے گئے تو سٹیشن کے مالکان کو صاف الفاظ میں یہ ہدایات دی گئیں کہ وہ خبروں اور سیاست سے کوئی لینا دینا نہ رکھیں. اس سسٹم کے ذریعے یہ یقینی بنایا گیا کہ خبروں میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہو گی جو کہ سرکاری بیانیہ کے خلاف جاۓ یا اس کو چیلنج کرے. مقامی خبروں کی غیر موجودگی کے باعث عام عوام کی توجہ ان کی اپنی کمیونٹی کے ضروری سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سے دور رکھی گئی.

ان میڈیا کے ذرائع کے اوپر کنٹرول اتنا سخت تھا کہ احتجاجات کے ذریعے آمروں کے کرسیوں سے اترنے کے بعد بھی میڈیا کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی خاص اقدام نہیں لئے گئے. یہ بات ضرور عیاں ہو گئی کہ حکمرانوں کو بدلنا اس میڈیا کے ڈھانچے کو بدلنے سے زیادہ آسان تھا جو کہ کئی دہائیوں کے اوپر قائم کئے گئے تھے.

الیکسزاندرا، سوئیز اور تحریر چوک پر جمع ہونے والے وہ لاکھوں احتجاجی جو پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے کنٹرول سے باہر آزاد جغرافیائی جگہے بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے، اس بات کو سوچنے سے قاصر رہے (اس پر عمل کرنا تو دور کی بات) کہ ان کو ایسی ہی آزاد جگہہ مقامی ریڈیو سٹیشنوں میں بنانی ہو گی جن کے زریعے وہ اپنے انقلابی پیغام کو پھیلا سکیں گے. نشریاتی آلات کہیں پر بھی مجود نہیں تھے اور نا ہی الیکٹرکل انجنیروں کو بلا کر سادہ قسم کے نشریاتی آلات بنواۓ گئے. حکومت کی طرف سے کئی ڈھائی تک دی ہوئی دھمکیوں کا عام مصریوں، تیونسیوں اور یمنیوں کی ذہنیت پر اتنا گہرا اثر ہوا کے انہوں نے ریڈیو کی لہروں پر اپنی انقلابی جنگ لڑی ہی نہیں.

بندوق کی نالی پر قومی یکجہتی مسلط کرنے والے آمرانہ عرب حکمرانوں کی ایسے میڈیا میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو مقامی کمیونٹیوں کی نسل، ثقافت، زبان اور مذھب کی حوصلہ افزائی اور اس کی فروغ کریں. اس بنیادی مواصلاتی صلاحیت کے انکار کا نتیجہ ایک ایسی عوام تھی جو ہمیشہ کے لئے اپنے بنیادی حقوق کا علم ہونے اور اس کے لئے لڑنے سے محروم رہے.

کچھ طاقتیں یہ غلط دعوی کرتی ہیں کہ کمیونٹی میڈیا مختلف لسانی اور قومی کمیونٹیوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھاۓ گا جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے ممالک ٹوٹ جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ خانہ جنگی کا بھی شکار ہو جایئں. حقیقت یہ ہے کہ عرب لیگ کے ممالک میں رہنے والے لوگ بہت الگ الگ طریقے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں. اس متنوعی کا انکار کرنے اور مکجھتلف اقسام کے لوگوں کو ایک ہی ثقافتی اور قومی شناخت میں ڈھالنے کے بجاۓ زیادہ بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ ایک ایسی انسان پسند حکمت عملی اپنائی جاۓ جو کہ ایک قومی شناخت کے اندر ہی مختلف ثقافتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دے. ان مخلتف گروہوں کو اپنانے اور ان کو طاقتور عرب ممالک کے نئے حکمران ایک ایسے ملک و معاشرے کے بیج بو سکیں گے جو کہ اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کی شورشوں کا آسانی سے مقابلہ کر سکے گا. اس لئے کمیونٹی ریڈیو ان نئی حکومتوں کے لئے رکاوٹ نہیں بلکے نجات کا باعث بنے گا.

کمیونٹیوں کو، خاص طور پر وہ جو عرب ممالک کے دار الخلافوں کے باہر رہتی ہیں، آمرانہ طاقتوں نے زیادہ تر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے. اب جب کہ ان حکومتوں کی جگہ جمہوری نظام لے رہے ہیں یہ امید کی جاتی ہے کہ نئے حکمران ان کمیونٹیوں کے حوالے سے بہتر پالیسیاں اختیار کریں گے. کمیونٹی ریڈیو کو پھلنے پھولنے کی اجازت دینے کی حکومت کو کوئی قیمت نہیں ادا کرنی پڑتی جب لہ یہ ان کمیونٹیوں میں، اور ان کے زریعے پورے ملک میں، زبردست نتائج دیتا ہے. عرب ممالک میں ضروری ہے کہ کمیونٹی ریڈیو کے لئے ایک آسودہ انتظامی اور قانونی ماحول بنایا جاۓ – بشرط یہ کہ ہمیں حکمران ایسے ملے جو اپنی کمیونٹیوں کے لئے خلوص دل کے لئے محبت رکھتے ہوں.

داؤد کتاب کمیونٹی میڈیا نیٹورک کے ڈائرکٹر جنرل ہیں جو کہ عرب خطے میں کمیونٹی ریڈیو کے ساتھ کام کرنے والی ایک این جی او ہے. اس مضمون کا ایک لمبا ورژن عرب میڈیا اور سوسائٹی میں شائع ہوا اور اس کو ادھر مصنف اور پبلشر کی اجازت سے شائع کیا گیا ہے.

مزید پڑھئے:

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی