آزادی اظہار راۓ کے طور پہ بھوک ہڑتال

پچھلے سال ٧٤ سالہ ہندوستانی کارکن اننا ہزارے نے حکومت سے کرپشن ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سرکار پر دباؤ ڈالنے کے لئے ‘تا موت بھوک ہڑتال’ کا اعلان کر دیا. کیا بھوک ہڑتال کو آزادی اظہار کے ایک جائز طریقے کے طور پر تحفظ ملنا چاہیے؟ ماناؤ بھوشن اور کیٹی اینگل ہارٹ اس معاملے میں ہمیں اپنے متضاد خیالات سے آگاہ کرتے ہیں.

اپریل ٢٠١١ میں وسطی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ٧٤ سالہ گاندھین کارکن اننا ہزارے نے نئی دہلی میں ایک عام بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا. یہ اقدام حالیہ دنوں میں منظر عام آنے والے کئی ہندوستانی پارلیمنٹیریوں کے کرپشن اسکینڈلوں کے رد عمل میں اٹھایا گیا. اننا ہزارے کا مطالبہ تھا کہ پارلیمان کرپشن کے خلاف ٹھوس قانون سازی کرے. پانچ دیں بعد حکومت نے اس کے سامنے ہار مان لی اور ایک  قانون نیکا مسودہ تیار ہونے لگا. لیکن یہ عمل جلد ہی رک گیا. اس کے چار مہینے بعد اننا ہزارے نے اپنی دوسری ‘بھوک ہڑتال تا موت’ شروع کی اور اس دفع انہوں نے ایک آزاد اینٹی-کرپشن ادارہ بنانے کا مطالبہ کیا.

اننا ہزارے کی بھوک ہڑتال شروع ہونے کے کچھ عرصے کے اندر ہی حکومت نے ان کو یہ کہ کر گرفتار کر لیا کہ یہ ایک عوامی نظم و ضبط کے لئے خطرہ ہے. لیکن جب ہزاروں لوگ اننا کی حمایت میں جمع ہوگئے (ہندوستان میں لوگوں کی اتنی بڑی تحریک ١٩٧٠ کی دہائی کے بعد نہیں دیکھی گئی تھی) تو حکومت کو انھے رہا کرنا پڑا اور اننا ہزارے نے اپنی بھوک ہڑتال نئی دہلی کے ایک پارک میں میڈیا کی پوری توجہ میں شروع کر دی. جس طرح اننا کا وزن کم ہوتا گیا حکام نے اینٹی کرپشن بل کی تیاریاں اور تیز کر دیں. اور بارہ دن بعد ہندوستانی پارلیمان نے ایک سمجھوتہ شدہ قراداد منظور کر لی – اور ہزارے نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دی.

سرکاری حکام نے اننا ہزارے کی بھوک ہڑتال کو ‘بلیک میل’ قرار دے دیا اور ایک ایم پی نے اس کو ‘جمہوریت کے لئے ایک خطرناک روایت’ کہا. دسمبر ٢٠١١ میں اننا نے کہا کے ہندوستان کا اینٹی-کرپشن بل ابھی بھی بہت کمزور ہے اور اپنی بھوک ہڑتال واپس شروع کرنے کی دھمکی دی.

مزید پڑھئے:

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی