ہبہ تعالیٰ طحہ مصر کے کچھ ایسے نوجوانوں کے بارے میں لکھتی ہیں جنہوں نے ٢٠١١ میں شہریوں کے خلاف فوجی تشدد کو ایکسپوز کرنے والی فلمیں دکھائیں.
کیس
٢٠١١ کے آخر میں مصر کے کچھ نوجوانوں نے عسکر کازبون (جھوٹے فوجی) نامی ایک مہم شروع کی جس کا مقصد فوج کی غلط بیانیوں کے بارے میں معلومات پھیلانا تھا. اس کا مقصد متبادل گراس روٹ کا میڈیا استعمال کر کہ (مثلا محلوں میں وڈیو دکھانا، مارچ کرنے اور سوشل میڈیا کا استعمال) شہریوں کو فوج کے مرتکب کئے ہوئے جرائم سے آگاہ کرنا تھا. اس کا نشانہ خاص طور پر ایسے لا علم لوگ تھے جن کو سرکاری اور فوجی کنٹرول میں میڈیا ایسے واقعات کو بیرونی سازش طور پر پیش کرتا تھا. کازبون کی ایک سرگرم کارکن سیلی ٹوما نے الجزیرہ کو بتایا کہ ‘اس کا سب سے اہم مقصد تحریر چوک کو تحریر چوک سے نکال کر ہر محلے تک پہنچانا ہے’.
کازبون کا قیام اس واقعے کا نتیجہ تھا جس میں فوج نے ان عام پھیلی ہوئی تصاویر اور وڈیوز کو مکمل طور پر مسترد کر دیا جن میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ملٹری پولیس نے ایک عورت پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اس کا جانگھیا بے نقاب ہو گیا. اس واقعے نے پورا ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور آخر کار مسلح افواج کی سپریم کونسل (سکیف) نے اس پر ‘مصر کی تمام عورتوں’ سے معافی مانگی. لیکن کازبون کی مہم شہرت حاصل کرتی گئی اور اس کے فیسبک پر ٩٢،٠٠٠ سے زائد اور ٹویٹر پر ٤٤،٠٠٠ سے زائد فالوور ہو گئے.
ان کی پبلک سکریننگز کو دھمکیاں دی گئیں اور ان پر حملے ہوئے؛ اس کی سب سے خوفناک اور پرتشدد مثال ہمیں موہندسین میں ایک سکریننگ کے دوران ملا. دگہلیا کے گورنر نے ان کی ایک سکریننگ پر پابندی عائد کر دی لیکن اس پابندی کی عام طور پر خلاف ورزی کی گئی. سکیف کے کئی حامیوں نے کازبون پر حملے بھی کئے کیوں کہ ان کا یہ کہنا تھا ملک میں استحکام لانے کے لئے سکیف کی حکمرانی ضروری ہے.
reply report Report comment
What has happened in Egypt these past few month’s was considered controversial. Many innocent people were killed because they were fighting for the most basic rights which they deserve, honestly i don’t know what has been going on but this was just plain outrageous.