القائدہ اور پاکستان کی افواج کے درمیان روابط کے بارے میں ایک رپورٹ چھاپنے کے بعد پاکستانی صحافی سلیم شہزاد کی نعش برآمد ہوئ، ایاز ملک لکھتے ہیں.
کیس
ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کے لئے جانے کے دوران پراسرار طور پر غائب ہونے کے دو دن بعد ٣٠ مئی ٢٠١١ کو تفتیشی صحافی سلیم شہزاد کی نعش، جس پر جسمانی تشدّد کے واضح نشان تھے، پاکستانی دارلحکومت اسلامآباد کے قریب سے برآمد ہوئ. شہزاد پر توجہ اس وقت مرکوز ہوئ جب انہوں نے تشدّد پسند گروہ القائدہ کی پاکستانی افواج میں ممنوعہ عمل دخل کے بارے میں ایک رپورٹ کا پہلا حصّہ چھاپا. ٢٢ مئی کو کراچی میں پاکستانی بحریہ کے ایک اڈے پر عسکریتپسندوں کے ایک کھلے عام حملے کے بعد دوسرا حصّہ چھپنے سے پہلے ہی سلیم غائب ہو گۓ.
اس سے پہلے اکتوبر ٢٠١٠ میں یہ خبر چھاپنے کے بعد کے آئ ایس آئ (جو کے پاکستان کا سب سے اہم انٹلیجنس ادارہ ہے) نے طالبان کے رہنما ملّا بردار کو رہا کر دیا ہے سلیم کو آئ ایس آئ کے ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیاجدھر ان کو اپنی رپورٹ واپس لینے کی ہدایت کی گئی. آئ ایس آئ کے ساتھ اس میٹنگ کے بعد سلیم نے ہیومن رایٹس واچ کے پاکستان ڈائریکٹر علی دایان حسن کو ای میل کر کے انٹلیجنس اداروں کے ہاتھوں اپنی زندگی خطرے میں ہونے کے خوف کا اظہار کیا.
سلیم کی موت کے بعد آئ ایس آئ نے اس میں کسی بھی طرح ملوث ہونے کی تردید کی اور واقعے کی تحقیق کے لئے ایک حکومتی کمیشن قیام کیا گیا جس میں صوبائی پولیس چیف، سینئر جج اور صحافیوں کے نمائندے شامل تھے. کمیشن نے جنوری ٢٠١٢ کے درمیان میں اپنی رپورٹ جاری کی. رپورٹ میں سلیم کی فملنے کو مناسب معاوضہ دینے کی تجویز کی گئی لیکن یہ قتل میں ملوث مجرموں کو بےنقاب کرنے میں ناکام رہی.انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے انٹلیجنس اداروں کو قتل کی ذمہ داری سے بارآ کر دینے پر اس رپورٹ کی شدید تنقید کی اور آئ ایس آئ کو پاکستان کے انساف کے نظام سے باہر قرار دیا.