فیسبک کا حد سے زیادہ پر جوش چہروں کو ٹیگ کرنا

کیا فیسبک کو آٹو میٹک طور پر یہ بتانا چاہئے کے تصویر میں کون موجود ہے؟ سباسچین ہمپفر پوچھتے ہیں کہ کیا فیسبک کا فوٹو ٹیگنگ سافٹ ویئر صارفین کے حق رازداری کی خلاف ورزی کرتا ہے.

آئرلینڈ کے ڈیٹا تحفظاتی کمشنر کے آڈٹ کے بعد ٢٣ ستمبر ٢٠١٢ کو فیسبک نے یورپ میں اپنے تمام صارفین کے لئے آٹو میٹک چہرے کو ٹیگ کرنے کی سہولت بند کر دی. جب آٹو میٹک ٹیگنگ ان ہوتی ہے تو فیسبک کا چہرے پہچاننے کا سافٹ ویئر کسی بھی صارف کی تصویروں کی چھان بین کر کے یہ تجویز کرتا ہے کہ ان تصاویر میں کون موجود ہے. کئی مہینوں تک یورپی ریگولٹروں نے اس فیچر کی مخالفت کی اور کچھ نے یہ بھی کہا کہ ‘گمنام رہنے کا حق خطرے میں ہے.’ شروع میں فیسبک نے اس کی تردید کی اور کھا کہ آٹو میٹک ٹیگنگ سے یورپی قانونوں کی خلاف ورزی نہیں ہوتی کیوں کہ صارفین آسانی سے اس سروس سے اپنے آپ کو ہٹا سکتے ہیں. لیکن ریگولیٹروں نے جب قانونی کاروائی اور جرمانہ عائد کرنے کی دھمکی دی تو کمپنی نے آخر کار ان کے مطالبات کو مان لیا. اس سے پہلے فیسبک کی آئرلینڈ، جو کے کمپنی کا امریکا کے باہر ہیڈ کوارٹر ہے، اور جرمنی، جدھر حق رازداری کے قانون صارف کی براہ راست اجازت کے بغیر کسی بھی قسم کا ڈیٹا جمع کرنے سے ممانعت کرتے ہیں، کے حکام سے اختلاف ہو چکا تھا.

کمپنی کو امریکا میں بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا. اگست ٢٠١٢ میں امریکی وفاقی تجارتی کمیشن نے فیسبک کے ساتھ ‘اگلے بیس برس تک ہر دو سال پر آڈٹ’ کرنے کا تصفیہ کر لیا اور فیسبک کو اس اقدام پر مجبور کیا کہ مستقبل ان کی حق رازداری پالیسیوں میں تمام تبدیلیاں آپٹ-ان ہونگی نہ کہ آپٹ-آوٹ. اہم طور پر‘نئی سہولیت جن میں نئے رازداری کر کنٹرول ہو’ ان کا آپٹ ان ہونا ضروری نہیں. فیسبک کے مالک مارک زکربرگ برگ نے ایک بیان میں اس تصفیہ کی اہمیت کو کم دکھانے کی کوشش کی.

مزید پڑھئے:

کسی بھی زبان میں تبصرہ کیجئے

جھلکیاں

سب ہا‏ئيلائٹس ديکھنے کے ليے دائيں طرف سوا‏ئپ کيجئيے


آزادی اظہار راۓ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایک تحقیقی پراجکٹ ہے جو کہ سینٹ اینٹونی کالج کے ڈیرنڈورف پروگرام براۓ مطالعہ آزادی کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے

اوکسفرڈ يونيورسٹی